شاہ جہاں پیدائیش 14جنوری 1592 (30 ربیع الاول 1000ھ)

پیدائش 14 جنوری 1592 -وفات 22 جنوری 1666 (74 سال) –
دور حکومت 30 جنوری 1628ء – 31 جولائی 1658ء(30 سال 6 ماہ 1 دن)

شاہجہاں برصغیر پاک و ہند میں پانچواں مغل شہنشاہ تھا۔ جہانگیر کی وفات کے بعد مختلف شہزادے دعویٰ شہنشاہی لے کر اُٹھے مگر
شاہجہاں اپنی زور و صلاحیت کی بناء پر 1628ء میں تخت نشیں ہوا۔ وہ عظیم ماہر تعمیرات بھی تھا، اُس کے عہد کی تعمیرات کی نظیر ثانی نہیں ملتی۔ قریب 30 سال تخت نشیں رہے اور 1658ء میں اُنہیں معزول کردیا گیا اور مغلوں کا ایک اور عظیم شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر تخت نشیں ہوا۔
نام و القابات
شاہجہاں کا اصل نام خرم ہے جبکہ کنیت ابو المظفرہے۔ لقب اعلیٰ حضرت صاحبِ قرآنِ ثانی ہے۔مورخین نے اِختصار سے کام لیتے ہوئے یہ نام تاریخ میں لکھا ہے: اعلیٰ حضرت صاحب قرآنِ ثانی ابو المظفر شہاب الدین محمد خرم شاہجہاں اول۔

مکمل نام مع القابات یوں ہے:

شاہنشاہ السلطان الاعظم والخاقان المکرم ملک السلطنت اعلیٰ حضرت ابو المظفر شہاب الدین محمد شاہجہاں اول صاحب قرآنِ ثانی پادشاہ غازی ظل اللہ فردوسِ آشیانی شہنشاہِ سلطنت الہِندیۃ والمُغلیۃ۔

شجرہ نسب
شاہجہاں کے والد جہانگیر تھے، دادا اکبراعظم اور پردادا ہمایوں تھے جبکہ سکردادا بابر تھے۔

شاہجہاں کا شجرہ نسب یوں ہے:

شہاب الدین محمد شاہجہاں ابن نور الدین جہانگیر ابن جلال الدین محمد اکبر بادشاہ ابن نصیر الدین محمد ہمایوں بادشاہ ابن ظہیر الدین محمد بابر۔

والدین
شاہجہاں کے والد مغل شہنشاہ جہانگیر تھے۔ شاہجہاں کی والدہ شہزادی مانمتی تھیں جو تاج بی بی بلقیس مکانی بیگم کے لقب سے مشہور تھیں۔ہندو مورخین نے شہزادی مانمتی کا نام جگت گوسائیں بھی لکھا ہے جس کی تائید اکثر مسلم مورخین نے بھی کی ہے۔

ولادت
شاہجہاں کی ولادت بروز بدھ 30 ربیع الاول 1000ھ مطابق 14 جنوری 1592ء کو دارالسلطنت لاہور میں ہوئی۔ شاہجہاں کی ولادت اُن کے دادا اکبر اعظم کی حکومت کے 36 ویں سال میں ہوئی۔ اُس وقت لاہور مغل سلطنت کا دارالسلطنت تھا اور مغل شہنشاہ اکبر اعظم 1586ء سے مع مغل شاہی خاندان کے یہیں مقیم تھا۔

1628ء کا نوروز
1628ء میں شاہجہاں نے نوروز کا جشن بڑے تزک و اِحتشام کے ساتھ منایا۔ اِس تہوار کی تقدیس و احترام میں اضافہ کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ 4 شہزادے تخت کے چاروں اطراف کھڑے ہوئے اور شاہجہاں نے خاندان کو بیش بہا تحائف دئیے۔ اِن تحائف کی مالت لاکھوں روپوں میں تھی۔ آصف خان کے منصب کو بڑھا کر نو ہزار ذات سے نو ہزار سوار کردیا گیا۔ درباریوں کو بھی گراں قدر انعامات دئیے گئے۔

بطور شہنشاہِ ہند تخت سے معزولی
اورنگ زیب نے جنگِ تخت نشینی کے دوران باقاعدہ اعلان جاری کیا تھا کہ اُس کی لڑائی صرف دارا شکوہ سے ہے اور باپ سے اُسے کوئی پرخاش نہیں۔ لیکن اورنگ زیب کی تخت نشینی سے لے کر 1666ء تک شاہجہاں قلعہ آگرہ میں قیام پزیر رہا۔

آخری ایام کے معمولات
ملا صالح کمبوہ نے شہنشاہ شاہجہاں کے اُن اواخر ایام کا تذکرہ “عمل صالح میں کیا ہے جو شاہجہاں نے سنہ 1658ء سے 1666ء تک آگرہ کے قلعہ میں نظر بندی کی مدت میں گزارے۔

” شاہجہاں قلعہ آگرہ میں نظر بند تھے، اِس کے باوجود اُن کے فیض و کرم کا دروازہ کھلا رہا۔ ضرورت مند ہمیشہ اُن تک پہنچ کر اُن کے جود و اِحسان سے فیض یاب ہوئے۔ سید محمد قنوجی سال 32 جلوس کے آغاز سے ہی ہمیشہ شاہجہاں کی مجلسِ خاصہ میں حاضر رہتا، قرآن کریم کے نکتے اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیان کرکے حاضرین کو مستفید کیا کرتا۔ اِس مدت میں شاہجہاں صبر و قناعت کے ساتھ قلعہ آگرہ میں گوشہ نشیں تھے۔ دِن رات کا زیادہ حصہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور فرض و سنت نمازیں ادا کرنے ، کلام اللہ کی تلاوت و کتابت میں بسر ہوتا۔ بزرگوں کے اقوال اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سنا کرتے تھے، فیض و بخشش اور سخاوت کا دروازہ کھلا رہتا تھا۔
تعمیرات
لال قلعہ
تاج محل
موتی مسجد
تخت طاؤس

Leave a Reply