محمد خالد اختر وفات 2 فروری

محمد خالد اختر (انگریزی: Mohammad Khalid Akhtar )، (پیدائش: 23 جنوری، 1920ء – وفات: 2 فروری، 2002ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے نامور مزاح نگار، ناول نگار، افسانہ نگار، سفرنامہ نگار اور مترجم تھے جو اپنے ناول چاکیواڑہ میں وصال کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔
حالات زندگی
محمد خالد اختر 23 جنوری، 1920ء کو تحصیل لیاقت پور، بہاولپور، موجودہ پاکستان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مولوی اختر علی بہاولپور سے ممبر لیجسلیٹو اسمبلی رہ چکے تھے۔[1][2]۔ خالد اختر نے ابتدائی تعلیم صادق پبلک اسکول بہاولپور سے حاصل کی جہاں شفیق الرحمن بھی ان کے ہم مکتب تھے[1]۔ صادق ایجرٹن کالج میں داخلہ لینے سے قبل محمد خالد اختر تین ماہ تک گورنمنٹ کالج لاہور میں سال اول کے طالب علم رہے۔ مذکورہ کالج میں وہ پروفیسر پطرس بخاری کی شخصیت کے اسیر ہوئے۔ صادق ایجرٹن کالج میں احمد ندیم قاسمی اور محمد خالد اختر کا ساتھ ہوا۔ احمد ندیم قاسمی، سال سوم میں تھے اور خالد اختر سے دو برس سینئر۔ دونوں کی دوستی بہت جلد ہوگئی۔ محمد خالد اختر فخر سے یہ دعویٰ کرتے تھے کہ احمد ندیم قاسمی کو انہوں نے افسانہ نگاری کی راہ پر ڈالاتھا۔

1945ء میں میکنیگن انجینئری کالج سے الیکٹرونکس انجینئری میں بی ایس سی کرنے کے بعد وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن گئے اور ایڈاونسز پوسٹ گریجویٹ کی تربیت حاصل کرنے کے بعد 1948ء میں وطن واپس آئے۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد انگلش الیکٹرک کمپنی میں دو برس ملازمت کی اور 1952ء میں واپڈا میں بحیثیت انجینئر تعینات ہوئے۔ محمد خالد اختر واپڈا کے ادارے سے 1980ء میں ر یٹائر ہوئے۔

ادبی خدمات
محمد خالد اختر نے اوائل عمری ہی سے لکھنے کا آغاز کر دیا تھا۔ جب وہ ساتویں جماعت میں تھے تو پہلی مرتبہ ان کے چند مضامین ماہانہ رسالے مسلم گوجر میں شائع ہوئے۔ مذکورہ رسالہ گوداسپور سے شائع ہوتا تھا۔ نویں جماعت میں محمد خالد اختر کو شاعر بننے کا شوق ہوا اور انہوں نے خضر تخلص اختیار کیا۔ پندرہ بیس نظموں کا ایک دیوان مرتب کیا جسے وہ اپنے سرہانے رکھ کر سویا کرتے تھے۔ نویں جماعت کے دنوں ہی میں محمد خالد اختر کو انگریزی ادب پڑھنے کا چسکا پڑا جس کے سحر سے وہ تمام عمر نہ نکل سکے۔ کالج کے زمانے میں وہ نخلستان نامی کالج میگزین میں اردو اور انگریزی زبانوں میں لکھتے رہے۔ محمد خالد اختر نے طنز و مزاح، خاکہ نگاری، افسانہ اور سفر نامے کے علاوہ متعدد ادبی اصناف میں اپنے فن کا لوہا منوایا ہے۔

محمد خالد اختر کی پہلی تحریر جو کسی ادبی جریدے میں شائع ہوئی، ایک مزاحیہ تحریر تھی جسے احمد ندیم قاسمی کی سفارش پر مولانا چراغ حسن حسرت نے اپنے ہفتہ وار مزاحیہ پرچے شیرازہ میں شائع کیا تھا۔ بعد ازاں 1946ء میں احمد ندیم قاسمی نے، خالد اختر کا تحریر کردہ سفرنامہ ڈیپلو سے نو کوٹ تک مجلہ ادب لطیف میں شائع کیا۔

محمد خالد اختر انگریزی کے نامور ادیب و انشا پرداز رابرٹ لوئی اسٹیونسن سے بے انتہا متاثر تھے۔ انہیں سیر و سیاحت کا بہت شوق تھا۔ اپنے اسی شوق کی خاطر وہ کئی بار گھر سے نکلے اور دور دراز علاقوں کی مسافت اختیار کی۔ گیان اور شانتی کی تلاش میں ایک مرتبہ وہ ہندوؤں کے مقدس مقام ہریدوار جا پہنچے اور ہندوانہ نام اختیار کر کے ایک سرائے میں کئی روز قیام کیا۔ اپنے اسی قیام کے دوران انہوں نے اپنی مشہور کہانی کھویا ہوا افق لکھی۔ اس کہانی کو سعادت حسن منٹو نے کتر بیونت کے بعد شائع کیا۔

تصانیف
1950ء – بیس سو گیارہ
1964ء – چاکیواڑہ میں وصال
1968ء – کھویا ہوا اُفق ( آدم جی ادبی انعام یافتہ)
1984ء – دو سفر (سفرنامہ)
1985ء – چچا عبدالباقی (کہانیاں)
1989ء – مکاتیب خضر (مضامین)
1990ء -یاترا (سفرنامہ)
1995ء -ابن جبیر کا سفر
1997ء – لالٹین اور دوسری کہانیاں
2008ء – کلی منجارو کی برفیں (منتخب ترجمے)
ریت پر لکیریں (انتخاب)
2011ء -مجموعہ محمد خالد اختر جلد اول (ناول)
2011ء – مجموعہ محمد خالد اختر جلد دوم (سفرنامے)
2011ء – مجموعہ محمد خالد اختر جلدسوم (افسانے)
2011ء – مجموعہ محمد خالد اختر جلدچہارم (چچا عبدالباقی کہانیاں)
محمد خالد اختر کے فن و شخصیت پر تحقیقی مقالات[ترمیم]
محمد خالد اختر: شخصیت و فن (پی ایچ ڈی مقالہ)، وحید الرحمٰن، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد، 2006ء
ہم عصر ادیبوں اور ناقدین کی آرا
محمد خالد اختر کے فن کے بارے میں معروف مزاح نگار و شاعر ابن انشا کہتے ہیں:

” محمد خالد اختر کو پڑھنے والا اکثر یہ بھول جاتا ہے کہ وہ اردو پڑھ رہا ہے۔ اس میں انگزیزی الفاظ کی بھرمار بھی نہیں ہے لیکن جملوں کی ساخت سراسر انگریزی ہے۔ شروع شروع میں یہ انداز غریب اور اکھڑا اکھڑا معلوم ہوتا ہے لیکن بعد میں اس میں بانکپن کا لطف آنے لگتا ہے۔ “
معروف ڈراما نویس و افسانہ نگار اشفاق احمد کچھ یوں کہتے ہیں:

” خالد کے فن کا سب سے بڑا کمال اس کے مغربی علوم کے مطالعے میں مشرقی زندگی کی پہچان ہے۔ یہ پہچان ایسی انوکھی، ایسی سبک اور کچھ ایسی اچانک ہے کہ اگلے فقرے پر پہنچ جانے کے بعد پچھلا راز کھل کر سامنے آجاتا ہے۔ ایسا انداز مشق سے حاصل نہیں ہوتا، صرف فطرت کی طرف سے ملتا ہے۔ “
اعزازات
محمد خالد اختر کو ادبی خدمات کے اعتراف میں 2001ء کو دوحہ، قطر میں عالمی اردو ایوارڈ سے نوازا گیا[5]۔ اس کے علاوہ ان کی کتاب کھویا ہوا اُفق کو آدم جی ادبی انعام کا حقدار قرار دیا گیا۔

وفات
2 فروری، 2002ء کو کراچی، پاکستان میں محمد خالد اختر کی وفات ہوئی اور ڈیفنس کے قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔

Leave a Reply