پروفیسر انجم اعظمی کی وفات 31 جنوری

پروفیسر انجم اعظمی 31 جنوری 1990ء کو اردو کے ممتاز شاعر، ادیب، نقاد اور ماہر تعلیم پروفیسر انجم اعظمی کراچی میں وفات پاگئے اور کراچی میں ہی سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔ پروفیسر انجم اعظمی کا اصل نام مشتاق احمد عثمانی تھا اور وہ 2 جنوری 1931ء کو فتح پور ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے گورکھ پور، الٰہ آباد اور علی گڑھ سے تعلیم حاصل کی اور قیام پاکستان کے بعد 1952ء میںکراچی میں سکونت اختیار کی اور محکمہ تعلیم سے وابستہ ہوئے۔ ان کے شعری مجموعوں میں لب و رخسار، لہو کے چراغ، چہرہ اورزیر آسماں کے نام شامل ہیں جبکہ ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعے ادب اور حقیقت اور شاعری کی زبان کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکے ہیں۔ انہیں ان کے مجموعہ کلام چہرہ پر 1975ء میں آدم جی ادبی انعام بھی عطا ہوا تھا۔ ان کا ایک شعر ملاحظہ ہو: جاگ اٹھا درد تو پھر رسم نبھائی نہ گئی رو پڑے لوگ تری بزم میں ہنستے ہنستے وہ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
نطم :نا امیدی کفر ہے

Leave a Reply