اصغر خان وفات 5 جنوری 2018

پاک فضائیہ کے پہلے کمانڈر انچیف۔ 17 جنوری 1921ء کو جموں میں پیدا ہوئے۔ 1936ء میں رائل انڈین ملٹری کالج ڈیرہ دون میں تعلیم حاصل کی۔ 1940ء میں گریجویشن کی اور اسی سال کے آخر میں نویں رائل دکن ہارس میں کمشین آفسر مقرر ہوئے۔ 1941ء میں انڈین ائیر فورس میں چلے گئے۔ اسی سال انبالہ اور سکندر آباد سے ہوا بازی کی تربیت حاصل کی۔ اگلے سال نمبر 3 سکوارڈن انڈین ائر فورس پشاور میں تعینات ہوئے۔ 1944ء میں برما میں بطور فلائیٹ کمانڈر خدمات انجام دیں اور جنگ برما میں حصہ لیا۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ کو جاپانی فوجی ٹھکانوں پر ہوائی حملہ کرنے پر مامور کیا گیا۔ 1945ء میں سکوارڈن لیڈر بنائے گئے۔ 1946ء میں برطانیہ گئے اور وہاں جیٹ طیارے اڑانے کی تربیت حاصل کی۔ اوائل 1947ء میں فلائنگ ٹرینگاسکول انبالہ میں چیف فلائنگ انسٹرکٹر مقرر ہوئے۔

وہ رائل انڈین ایرفورس کے پہلے پائلٹ تھے جن کے اسکواڈرن نے سانگھڑ کے علاقے مکھی میں گوٹھ جام نواز علی پر پرواز کرتے ہوئے حر پناہ گزینوں کے نہتے قافلے کو دہشت گرد سمجھ کر بمباری نہیں کی اور اظہارِ وجوہ کے نوٹس کا سامنا کیا۔وہ رائل انڈین ایرفورس کے پہلے پائلٹ جنہوں نے جیٹ لڑاکا طیارہ گلوسٹر میٹیور اڑایا (انیس سو چھیالیس)۔پاکستان بننے کے بعد رائل ایرفورس کے پہلے سینئر پائلٹ جنہوں نے نئی مملکت کی ایرفورس کے لیے آپٹ کیا۔پاکستان ایرفورس اکیڈمی رسالپور کے بانی کمانڈنٹ (مئی دو ہزار سترہ میں اکیڈمی کا نام ان کے نام پر رکھ دیا گیا)، ایر سٹاف کالج اور کالج آف ایروناٹیکل انجینیرز کا بانی، پاک فضائیہ کا پہلا ایرمارشل اور چیف (عمر چھتیس برس)۔
قیام پاکستان
قیام پاکستان کے بعد پاکستان ائیر فورس کالج رسالپور نوشہرہ کو منظم کرنے کا فریضہ انجام دیا۔ قائداعظم رسالپور تشریف لائے تو انہوں نے ان کا خیرمقدم کیا۔ 1949ء میں گروپ کپٹن بنائے گئے اور اس حیثیت سے آپریشنل پاکستان ائیر فورس کی کمان سنبھالی۔ اسی سال ان کو رائل ائیر فورس سٹاف کالج برطانیہ سے اعلٰی کارکردگی کا ایوارڈ ملا۔ 1957ء میں صرف 36 سال کی عمر میں ائیر وائس مارش بنائے گئے۔ 1958ء میں ائر مارشل ہوگئے اور 1965 میں ریٹائر ہو گئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد محکمہ ہوابازی کے ناظم اعلٰی اور پی آئی اے کے صدر نشین مقرر ہوئے۔ اسی سال سینٹو میں فوجی مشیر بنے۔ اصغر خان کو ہلال قائداعظم اور ہلال پاکستان کے اعزازات سے نوازا گیا۔ لیکن بعد میں انہوں نے یہ اعزازات واپس کر دئیے تھے۔

1965 کی جنگ میں کردار
ائیرمارشل اصغر خان پاک فضائیہ کے سربراہ تھے توانہوں نے پاک فوج کے طیارے اور سازوسامان حاصل کرنے کی بھرپور اور کامیاب کوشش کی۔ انہوں نے پائلٹوں کی تربیت کے لیے بھی بہت محنت کی لیکن اپریل ، مئی 1965 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان میں رن آف کچھ کے تنازعے پر انہوں نے بھارتی فضائیہ کے سربراہ کو فون کر کے دونوں ممالک کی ائر فورسز کو اس تنازعے سے دور رکھنے کا اہتمام کیا۔ بادی النظر میں یہ اقدام معمولی نظر آتا ہے لیکن اس سے فضائیہ کے مورال پر بہر طور منفی اثرات مرتب ہوئے۔اصغر خان کے اس طرز عمل پر 23 جولائی 1965 کو آنے والے ائر چیف نور خان نے شدید تنقید کی تھی اور فوری طور فضائیہ کو الرٹ پر ڈال کر کشمیر اور ملحقہ علاقوں میں پروازیں شروع کرادی تھیں۔جس سے پاک فضایہ جنگ کے لیے تیار ہو گئی اور اس نے جنگ میں بہترین مہارت کا ثبوت دیا۔

پی آئی اے کے منیجنگ ڈائریکٹر
ایوب خان نے اصغر خان کو پی آئی اے کا مینجنگ ڈائریکٹر بنا دیا۔ان کا پیسٹھ سے اڑسٹھ کا تین سالہ دور پی آئی اے کی ’’ گولڈن ایج‘‘ کہلاتا ہے۔اس عرصے میں پی آئی اے حادثاتی اعتبار سے دنیا کی سب سے محفوظ ایرلائن بن گئی اور پروازوں کے شیڈول اور کیبن سروس کے اعتبار سے پانچ بڑی ایرلائنز میں شمار ہونے لگا۔اصغر خان نے اس دوران کمرشل پائلٹ لائسنس بھی حاصل کر لیا (یعنی ایرفورس کا پہلا سابق چیف جو کمرشل پائلٹ بھی تھا)۔

سیاست
پی آئی اے سے سبکدوشی کے بعد وہ 1969ء میں سیاست کے میدان میں وارد ہوئے اور اپنی سیاسی جماعت جسٹس پارٹی بنائی جس کا نام 1970ء میں بدل کر تحریک استقلال رکھ دیا گیا۔ مارچ 1969ء میں صدر ایوب خان کے خلاف اٹھنے والی تحریک میں بھٹو صاحب کا ساتھ دیا۔ دسمبر 1970ء کے عام انتخابات میں راولپنڈی کے حلقے سے الیکشن لڑا لیکن ہار گئے۔ ان انتخابات کے بعد بھٹو صاحب کو ایسا عروج حاصل ہوا کہ اصغر خان کی سیاسی قد و قامت گھٹ گئی۔ بھٹو صاحب کے عہد میں حزب اختلاف میں رہے لیکن نہ حکومت نے نوٹس لیا نہ عوام نے۔ 1977ء کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف جو احتجاجی تحریک شروع ہوئی تو اس میں دوبارہ سیاست میں آنے کا موقع ملا۔ اور یوں پی این اے کی تحریک کے صف اول کے رہنما بنے۔ لیکن اس دفعہ بھی وہ سیاسی افق پر نمودار نہ سکے اور مارشل لا آگیا۔ یوں بھٹو صاحب کے خلاف چلائی جانے والی تحریک سے ایک آمر فیض یاب ہوا۔

مارشل لا
جنرل ضیاء الحق کے عہد میں حکومت کے اوائل برسوں میں اصغر نظر بند رہے۔ 1981ء میں پاکستان قومی اتحاد سے علیحدگی اختیار کرکے بحالی جمہوریت کی تحریک ایم آر ڈی میں شرکت کی اور 1986ء میں اسے بھی چھوڑ دیا۔ 1987ء میں کابل گئے اور افغانستان کی کمونسٹ حکومت سے مذاکرات کیے۔ ان کا خیال تھا کہ افغانستان میں روس سے طویل فوجی مسابقت پاکستان کے مفادات میں نہیں۔ 1988ء کے انتخاب میں تحریک استقلال نے قومی اسمبلی یا کسی بھی صوبائی اسمبلی سے ایک بھی سیٹ نہیں ملی اور یہی حال بعد میں آنے والے انتخابات میں رہا۔ لیکن اس کے باوجود ان کے اخلاص اور بے غرضی کی وجہ سے پاکستانی سیاست میں ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ صدر پرویز مشرف کے دور میں ان کے صاحبزادے عمر اصغر خان کو مشرف نے اپنی کابینہ میں شامل کیا۔ لیکن عمر اصغر خان پراسرار طور پر اپنے گھر میں مردہ پائے گئے۔ انہوں نے خود کشی کی یا انہیں قتل کیا گیا اس کا آج تک معلوم نہیں ہو سکا۔ آپ 5 جنوری 2018 کو طویل علالت کے بعد وفات پا گئے

Leave a Reply