عطا شاد کی وفات فروری 13

عطا شاد/بلوچی شاعر اردو اور بلوچی کے ممتاز شاعر اور ادیب عطا شاد 13 نومبر 1939ء کو سنگانی سرکیچ، مکران میں پیدا ہوئے تھے۔ عطا شاد کا اصل نام محمد اسحاق تھا- 1962ء میں پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد وہ پہلے ریڈیو پاکستان سے اور پھر 1969ء میں بلوچستان کے محکمہ تعلقات عامہ سے بطور افسر اطلاعات وابستہ ہوئے ۔ 1973ء میں وہ بلوچستان آرٹس کونسل کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے اور ترقی کرتے کرتے سیکریٹری کے عہدے تک پہنچے۔ ان کی اردو شعری مجموعوں میں سنگاب اور برفاگ، بلوچی شعری مجموعوں میں شپ سہارا ندیم، روچ گر اور گچین اور تحقیقی کتب میں اردو بلوچی لغت، بلوچی لوک گیت اور بلوچی نامہ شامل ہیں۔ حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔ 13 فروری 1997ء کو عطا شاد کوئٹہ میں وفات پاگئے۔

ادبی خدمات
عطا شاد کی شاعری کی خاص بات یہ ہے کہ یہ اپنا ایک الگ اور انفرادی ماحول رکھتی ہے جو صرف اسی سے مخصص ہے۔ چنانچہ یہ اپنے قاری کو کچھ دیر کے لیے ایسے ماحول میں پہنچا دیتی ہے جو بالکل الگ، منفرد اور حد درجہ دلکش ہے اس کے مطالعے سے قاری پر بیک وقت مختلف و متضاد حالتیں اور کیفیات طاری ہوتی ہیں، اسے بلند و بالا کہسار اور قدرتی چشمے، صحرا و رریگستان، ہنستے برستے جھرنے، دشتِ تپاں اور خلوتِ یخ کے مشاہدات، زمستاں میں شبِ گرم کی برکتیں اور گلاب نژاد اور آفریدۂ مہتاب لوگ اور چہرے نظر آتے ہیں۔ ایسے عناصر سے تشکیل پانے والا منظر نامہ قاری کے لیے حیرت کا وافر سامان اپنے اندر رکھتا ہے۔ اس شاعری کا قاری خود کو اپنے ماحول سے الگ محسوس کرتے ہوئے ایک بالکل نئی آب و ہوا اور اجنبی سر زمین پر کھڑا ہوا پاتا ہے۔ اس کا اعتراف ڈاکٹر ناصر عباس نئیر نے اس طرح کیا:

” عطا شاد کی غزلیں پڑھتے ہوئے قاری خود کو ایک خاص جغرافیائی فضا میں محسوس کرتا ہے۔ “
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عطا شاد کے شعری منظر نامے پر بلوچستان اپنے جغرافیائی، تہذیبی اور ثقافتی و سماجی خط و خال سمیت چھایا ہوا ہے۔ عطا شاد تربت، مکران میں پیدا ہوا ، پلا بڑھا جو بلوچستان کا گرم ترین علاقہ ہے اور پھر اس کی باقی کی ساری زندگی تقریباً کوئٹہ میں گزری۔ کوئٹہ اور اس کے مضافات زیارت، کان مہترزئی، برشور وغیرہ بلوچستان کے سرد ترین علاقے ہیں۔ وہ بلوچستان کے سر و گرم ، دشت و دریا، کوہ و صحرا، برف و دھوپ ہر دو طرح کے شدید موسموں اور مختلف ثقافتی عناصر سے بخوبی واقف تھا۔ اس لیے یہ سب اس کے شعری نظام کے مستقل استعارے بن کر سامنے آتے ہیں اور ایک نئی شعری فضا تشکیل دیتے ہیں اور اپنے قاری کو ورطہ حیرت میں ڈالتے ہیں، اسی کا اعتراف ناصر عباس نے کیا ہے۔

لسانی حوالے سے عطا شاد کا اہم کام نئی لفظیات و تراکیب کی تعمیر اور ان کا فنکارانہ استعمال ہے۔ ان لفظیات کی جڑیں زمین میں پیوست ہیں اگرچہ اس طرح کی لفظیات و تراکیب کی ایجاد کی اکا دکا مثالیں بلوچستان کی شاعری میں عطا شاد کے علاوہ بھی نظر آتی ہیں تاہم وسیع پیمانے پر اور ایک تسلسل کے ساتھ نئی تراکیب نہ صرف وضع کرنا بلکہ انھیں فنی چابکدستی کے ساتھ جزوِ شاعری بنانا بلاشبہ عطا شاد کا کارنامہ ہے۔ اس کی چند منفردو ممتازتراکیب میں سنگاب، خطۂ جاں، خلوتِ یخ، وقفِ زمستاں، دشتِ ہوابستہ، بلاکشانِ نظر، گلباغ خاک، طشتِ جاں ، خمارِ آبِ بقا، گلاب نژاد، آفریدۂ مہتاب، خشکابۂ مراد ، چوب صحرا، جانِ صدا، گنگ، ہنر، حرفِ جاں بار، سرِ گنگ زارِ ہوس، پندارِ عرض طلب اور دشتِ تپان وغیرہ ہیں۔ ان تراکیب کی ساخت میں اس دھرتی کا تہذیبی و جغرافیائی پس منظر پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ اس لیے معنوی ندرت کے ساتھ ساتھ یہ اعلیٰ درجے کی صوری اور صورتی انفرادیت بھی رکھتی ہیں اور اس کی شاعری کو اردو کی مجموعی شعری روایت سے مختلف بناتی ہیں۔

اس کے علاوہ عطا شاد نے بعض خالص بلوچی الفاظ کو اپنی شاعری میں برتا ہے۔ اس نے یہ الفاظ اس طرح اردوائے ہیں کہ یہ اجنبی ہونے کے باوجود مانوس لگتے ہیں اور طبیعت پر گراں گزرتے ہیں نہ ہی شعر کے آہنگ کو متاثر کرتے ہیں۔ بلوچی کے جن الفاظ نے اس کی شاعری میں ظہور کیا ان میں تنگیں (پیاسا ) ، تلکیس (دام)، ذوباد (جنوب کی ہوا)، گلگ (بال) اور عومر (بلوچی داستان کا کردار) وغیرہ ہیں۔ اس طرح عطا شاد نے اردو زبان کے لسانی ذخیرے میں اضافہ کیا اور اس نظریے کو تقویت پہنچائی کہ اردو زبان کا خمیر اسی دھرتی سے اٹھا ہے جو آج کے موجودہ پاکستان پر مشتمل ہے اور جہاں پنجابی، بلوچی، پشتو، سندھی، سرائیکی اور دیگر زبانوں کے ساتھ ساتھ مختلف دیگر چھوٹی چھوٹی بولیاں بولی جاتی ہیں اور اردو کا مستقبل ان زبانوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تال میل پر ہے۔

عطا شاد کا شمار بلوچستان کے ان اولین بلکہ اکا دکا شعرا میں ہوتا ہے جو نہ صرف جدید طرز احساس سے آشنا ہیں بلکہ جدید حسیت کا اظہار ان کی شاعری میں فنکارانہ سطح پر ہوتا ہے جبکہ اس کا فن دیگر لوازمات شعری سے بھی مملو ہے، چاہے وہ امیجری ہو کہ غنائیت، بلکہ غنائیت عطا شاد کی شاعری کی جان ہے۔ اس کی شاعری کا بیشتر حصہ مختصر اور مترنم بحروں پر مشتمل ہے۔ جس نے اس کی شاعری کو ایسا پر لطف اور دلکش بنا دیا ہے کہ صرف ایک بار کی قرأت سے شعر ذہن نشین ہو جاتاہے۔ شاید اس کے قبولیتِ عام کا ایک سبب یہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کے مختلف شعر عوام و خواص کی یادداشت کا مستقل حصہ ہیں۔

عطا شاد نے کلاسیکی اسلوب کی حامل کچھ غزلیں کہی ہیں تاہم یہ مقدار میں اس قدر زیادہ نہیں کہ اس کی پوری شاعری پر حاوی نظر آئیں پھر یہ اس کا کوئی ایسا ناقابلِ معافی جرم نہیں ہے۔ اردو کے قریباً سبھی بڑے شعرا اس مرحلے سے گزرے ہیں کہ انہوں نے دوسروں کے تقلیدی رنگ میں غزل سرائی کی ہوچاہے وہ اسد اللہ خان غالب جیسے بے مثل شاعر کا طرزِ بیدل میں ریختہ کہنا ہو یا پھر اقبال کا بہ رنگِ داغِ ؔ غزل گوئی کرنا اور اس کے در پر بذریعہ مکتوب باقاعدہ اصلاح کے لیے حاضری دینا۔ آج ان واقعات کی اہمیت صرف تاریخی حیثیت سے ہے۔ ہر دو شعرا کے معام و مرتبے کی تعین اور ان کی شاعری کی تفہیم کے لیے ان کے ایسے کلام پر انحصار نہیں کیا جاتا ۔ پھر یہ بات عطا شاد کے باب میں کہاں مناسب سمجھی جائے گی کہ اس کے فنی مطالعے کے لیے اس طرح کے محدود کلام پر تکیہ کیا جائے اور اس کی قدر پیمائی کے لیے ایسے کمزور نکات کی بنیاد پر تنقید کی عمارت قائم کی جائے۔ کم سے کم لفظوں میں یہ بد انصافی ہی کہلائے گی۔ حالانکہ کسی شاعر کے تنقیدی مطالعے میں اہم بات شاعر کی انفرادیت، اس کی تخلیقی اُپج ، کسی نئے پیرائیہ اظہار کی تشکیل، نئے موضوعات و اسالیب (چاہے وہ کسی جغرافیائی وحدت سے ہی متعلق کیوں نہ ہوں) اور اس کی شاعری کی مجموعی طو رپر ایک ایسی الگ فضا بنانا ہے جو پہلے سے موجود شعری روایت میں موجود نہ ہو اور جو قاری کو نہ صرف ایک نئی دنیا کی سیر کرائے، اسے حظ بخشے بلکہ بہت کچھ غور وفکر کی دعوت بھی دے اور انصاف کی بات یہ ہے کہ عطا شاد ان مراحل سے کامیاب گزرا ہے۔
تصانیف
سنگاب
روچ گیر
درین
گچین شاعری
برفاگ
بلوچی اردو لغت
ہفت زبانی لغت (بلوچی حصہ)
بلوچی نامہ

نمونہ کلام
غزل

بڑا کٹھن ہے راستہ جو آ سکو تو آؤ یہ زندگی کا فاصلہ مٹا سکو تو آؤ
بڑے فریب کھاؤ گی، بڑے ستم اُٹھاؤ گی یہ عمر بھر کا ساتھ ہے مٹا سکو تو آؤ
میں اک غریبِ بے نوا، میں اک فقیرِ بے صدا مری نظر کی التجا جو پا سکو تو آؤ
یہ زندگی یہاں خوشی غموں کے ساتھ ساتھ ہے رلا سکو تو ساتھ دو ہنسا سکو تو آؤ
غزل

پارساؤں نے بڑے ظرف کا اظہار کیا ہمیں سے پی اور ہمیں رسوا سرِ بازار کیا
رات پھولوں کی نمائش میں وہ خوش جسم سے لوگ آپ تو خواب ہوئے اور ہمیں بیدار کیا
درد کی دھوپ میں صحرا کی طرح ساتھ رہے شام آئی تو لپٹ کر ہمیں دیوار کیا
کچھ وہ آنکھوں کو لگے سنگ پہ سبزے کی طرح کچھ سرابوں نے ہمیں تشنۂ دیدار کیا
سنگساری میں تو وہ ہاتھ بھی اٹھا تھا عطا جس نے معصوم کہا جس نے گنہ گار کیا
غزل

یک لمحہ سہی عمر کا ارمان ہی رہ جائے اس خلوتِ یخ میں کوئی مہمان ہی رہ جائے
قربت میں شبِ گرم کا موسم ہے ترا جسم اب خطۂ جاں وقفِ زمستان ہی رہ جائے
مجھ شاخِ برہنہ پہ سجا برف کی کلیاں پت جھڑ پہ ترے حسن کا احسان ہی رہ جائے
برفاب کے آشوب میں جم جاتی ہیں سوچیں اس کربِ قیامت میں ترا دھیان ہی رہ جائے
سوچوں تو شعاعوں سے تراشوں ترا پیکر چھو لوں تو وہی برف کا انسان ہی رہ جائے

Leave a Reply