شاکر علی کی وفات

شاکر علی 27 جنوری 1975ء کو پاکستان میں تجریدی مصوری کے بانی اور نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کے سابق پرنسپل جناب شاکر علی انتقال کرگئے۔ شاکر علی 6 مارچ 1914ء کو رام پور میں پیدا ہوئے تھے۔ مصوری کی ابتدائی تعلیم جے جے اسکول آف آرٹس بمبئی سے حاصل کرنے کے بعد وہ انگلستان چلے گئے جہاں انہوں نے فن مصوری کا تین سالہ کورس مکمل کیا۔ انہیں کچھ عرصہ فرانس کے ممتاز مصور آندرے لاہوتے (Andre L’Hote) کے ساتھ کام کرنے کا موقع بھی ملا۔ 1951ء میں پاکستان آگئے اور 1952ء میں میو اسکول آف آرٹس لاہور سے وابستہ ہوگئے جو بعد میں نیشنل کالج آف آرٹس کہلانے لگا۔ 1961ء میں وہ اسی کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے اور 1973ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ شاکر علی پاکستان میں تجریدی مصوری کے ساتھ ساتھ تجریدی خطاطی کے بانیوں میں بھی شمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے آیات قرآنی کو تجریدی انداز میں لکھنے کی جو بنا ڈالی اسے بعد ازاں حنیف رامے‘ صادقین‘ آفتاب احمد‘ اسلم کمال‘ شفیق فاروقی‘ نیر احسان رشید‘ گل جی اور شکیل اسماعیل نے بام عروج تک پہنچا دیا۔ حکومت پاکستان نے فن مصوری میں ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر 1962ء میں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور 1971ء میں ستارہ امتیاز عطا کیا تھا۔ پاکستان کے محکمہ ڈاک نے ان کی وفات کے بعد 19 اپریل 1990ء اور 14اگست 2006ء کو ان کی مصوری اور تصویر سے مزین دو ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیے ۔ شاکر علی کا انتقال 27 جنوری 1975ء کو لاہور میں ہوا۔ وہ لاہور میں گارڈن ٹائون کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ ان کی لوح مزار پر یہ عبارت درج ہے جو محترمہ کشور ناہید کے ذہن رسا کی تخلیق ہے: چڑیوں‘ پھول اور چاند کا مصور شاکر علی 6 مارچ 1914ء کو رام پور کے افق پر طلوع ہوا اور 27 جنوری 1975ء کو لاہور کی سرزمین میں مدفون۔

Leave a Reply