شاہراہ قراقرم کی تعمیر کا آغاز فروری 16

شاہراہ قراقرم 16 فروری 1971ء کو پاکستان کی بری فوج کے چیف آف اسٹاف جنرل عبدالحمید خان نے بلتت (ہنزہ) میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں شاہراہ قراقرم کا افتتاح کیا۔ یہ شاہراہ مغربی پاکستان کے انتہائی شمالی علاقوں ہنزہ اور گلگت کو عوامی جمہوریہ چین کے صوبہ سنکیانگ کے شہر کاشغر سے ملاتی ہے۔ شاہراہ قراقرم اس قدیم شاہراہ ریشم کی جگہ تعمیر ہوئی ہے جہاں سے پرانے زمانے میں ہندوستان سے چین کو جانے والے تجارتی قافلے گزرا کرتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ شاہراہ بند ہوگئی مگر اب چین اور پاکستان کے درمیان بڑھتے ہوئے دوستانہ اور تجارتی روابط کے پیش نظر اس شاہراہ کو ازسرنو تعمیر کیا گیا اور اسے شاہراہ قراقرم کا نام دیا گیا۔ شاہراہ قراقرم کے افتتاح کے موقع پر چین کے وزیر مواصلات مسٹر یانگ چیہہ اور پاکستان کی بری فوج کے چیف آف اسٹاف جنرل عبدالحمید خان نے اپنی اپنی حکومتوں کی جانب سے دستاویزات پر بھی دستخط کیے۔
شاہراہ قراقرم (قومی شاہراہ 35 یا مختصراً این-35) پاکستان کو چین سے ملانے کا زمینی ذریعہ ہے۔ اسے قراقرم ہائی وے اور شاہراہ ریشم بھی کہتے ہیں۔ یہ دنیا کے عظیم پہاڑی سلسلوں قراقرم اور ہمالیہ کو عبور کرتی ہے۔ درہ خنجراب کے مقام پر سطح سمندر سے اس کی بلندی 4693 میٹر ہے۔ یہ چین کے صوبہ سنکیانگ کو پاکستان کے شمالی علاقوں سے ملاتی ہے۔ یہ دنیا کی بلند ترین بین الاقوامی شاہراہ ہے۔

یہ بیس سال کے عرصے میں 1986ء مکمل ہوئی اسے پاکستان اور چین نے مل کر بنایا ہے۔ اس کو تعمیر کرتے ہوئے 810 پاکستانیوں اور 82 چینیوں نے اپنی جان دے دی۔ اس کی لمبائی 1300 کلومیٹر ہے۔ یہ چینی شہر کاشغر سے شروع ہوتی ہے۔ پھر ہنزہ، نگر، گلگت، چلاس، داسو، بشام، مانسہرہ، ایبٹ آباد, ہری پورہزارہ سے ہوتی ہوئی حسن ابدال کے مقام پر جی ٹی روڈ سے ملتی ہے۔

دریائے سندھ، دریائے گلگت، دریائے ہنزہ، نانگا پربت اور راکاپوشی اس کے ساتھ ساتھ واقع ہیں۔

شاہراہ قراقرم کے مشکل پہاڑی علاقے میں بنائی گئی ہے اس لیے اسے دنیا کا آٹھواں عجوبہ بھی کہتے ہیں۔

Leave a Reply