ایم اشرف کی وفات 4 فروری

ایم اشرف پاکستان کا مشہور فلمی موسیقار تھے۔ 60 کے عشرے میں منظور کے ساتھ کام کیا اور ان کی جوڑی منظور اشرف کے نام سے بہت مشہور ہوئی۔ اس کے بعد یہ جوڑی ٹوٹ گئی اور یوں منظور منظر عام سے غائب ہو گئے لیکن ایم اشرف نے موسیقی کی دنیا میں اپنا ایک الگ نام پیدا کیا۔سن ساٹھ، ستّر اسّی اور نوّے کی دہائیوں میں ایم اشرف نے مجموعی طور پر چھ سو سے زیادہ فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔

انھوں نے بطور میوزک ڈائریکٹر شباب کیرانوی کی فلم ’سپیرن‘ سے اپنے کام کا آغاز کیا اور آنے والے چالیس برس تک بِلا تکان اردو اور پنجابی فلموں کے لیے ہر طرح کےگانوں کی موسیقی مرتب کرتے رہے۔ ان کا زیادہ تر کام شباب پروڈکشن کے لیے ہی تھا۔

فلم کی موسیقی آرٹ سے زیادہ ایک ’کرافٹ‘ کا درجہ رکھتی ہے جس میں کہانی کی صورتِ حال اور گیت کے بولوں کو مدِ نظر رکھ کر دُھن بنانی ہوتی ہے۔ بہت سے ماہرینِ موسیقی جو سنگیت وِدیّا کے ساگر میں بڑی گہرائی تک جا سکتے ہیں، فلمی موسیقی کی جھیل میں چند ہاتھ بھی نہیں تیر سکتے کیونکہ یہاں موسیقار آزاد نہیں ہوتا اور اُسے کئی طرح کے تکنیکی اور کمرشل تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے دُھن بنانی پڑتی ہے۔

ایم اشرف نے بلا شبہ اِن تمام تقاضوں کو پورا کیا اور دھنیں بھی ایسی تخلیق کیں جو فوراً عوام کو ذہن نشین ہوجائیں۔ ملکہ ترنم نورجہاں اور سُر کے بادشاہ مہدی حسن سے لیکر طاہرہ سید، رجب علی، اخلاق احمد، نیرہ نور اور انور رفیع تک ہر گلوکار اور گلوکارہ نے اُن کے مرتب کردہ گیت گائے۔

اِن کے ترتیب دیے ہوئے کچھ گیتوں کی موسیقی تو امر ہے جیسے ’ہمارے دِل سے مت کھیلو‘، ’جب کوئی پیار سے بُلائے گا‘، ’تمہی ہو محبوب میرے‘، ’تو جہاں کہیں بھی جائے میرا پیار یاد رکھنا‘، ’میرا بابو چھیل چھبیلا میں تو ناچوں گی‘، ’دِل کو جلانا ہم نے چھوڑ دیا، چھوڑ دیا‘ وغیرہ۔

اسی طرح لوک دھنوں پہ ترتیب دیے ہوئے اُن کے پنجابی نغمے بھی فوراً ہی زبان زدِ خاص و عام ہو جاتے تھے مثلاً ’نمبواں دا جوڑا اسی باگے وچوں توڑیا‘، ’دو پتّر اناراں دے‘ یا پھر مشہورِ عالم ’میرا لونگ گواچا‘۔سنہ ساٹھ اور ستر کے عشروں میںان کو بہترین موسیقار کے طور پر ایک درجن سے زیادہ ایوارڈ ملے۔ ان کے تینوں بیٹے شعبۂ موسیقی سے منسلک ہیں ۔ انتقال: 4 فروری 2007ء
ایم اشرف کے گیت

Leave a Reply