مولانا محمد علی جوہر: تحریک آزادی کے بے باک رہنما


مولانا محمد علی جوہر (1878-1931) برصغیر کی تحریک آزادی کے ممتاز رہنما، صحافی، شاعر، اور سیاستدان تھے۔ انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ اور آزادی کی تحریک میں بے مثال خدمات انجام دیں۔ ان کی شخصیت میں عزم، قیادت، اور دینی جذبہ نمایاں تھا، جس نے انہیں تاریخ میں ایک منفرد مقام دیا۔


ابتدائی زندگی

پیدائش:

مولانا محمد علی جوہر 10 دسمبر 1878 کو رامپور میں پیدا ہوئے۔

تعلیم:

انہوں نے ابتدائی تعلیم رامپور سے حاصل کی اور پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ بعد ازاں، انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے تاریخ اور قانون میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔

ذاتی زندگی:

وہ ایک علمی اور دینی خاندان سے تعلق رکھتے تھے، جس کا اثر ان کی شخصیت پر واضح نظر آتا تھا۔


سیاسی زندگی


مولانا محمد علی جوہر نے اپنی زندگی مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ اور ہندوستان کی آزادی کے لیے وقف کر دی۔

خلافت تحریک:

1920 کی دہائی میں انہوں نے خلافت تحریک میں قائدانہ کردار ادا کیا، جس کا مقصد عثمانی خلافت کا تحفظ تھا۔

مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کیا۔

برطانوی حکومت کے خلاف احتجاج کی قیادت کی۔

تحریک آزادی:

مولانا محمد علی جوہر نے کانگریس اور مسلم لیگ دونوں میں اہم کردار ادا کیا۔

کانگریس کے پلیٹ فارم سے آزادی کے لیے جدوجہد کی۔

بعد میں مسلم لیگ کے قیام میں حصہ لیا تاکہ مسلمانوں کے علیحدہ سیاسی مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔


صحافتی خدمات


مولانا جوہر ایک بے مثال صحافی تھے جنہوں نے صحافت کو تحریک آزادی کا ہتھیار بنایا۔

اخبارات کی اشاعت:

کامریڈ: انگریزی زبان میں شائع ہونے والا اخبار جو ہندوستان کے مسلمانوں کے مسائل کو اجاگر کرتا تھا۔

ہمدرد: اردو زبان میں شائع ہونے والا اخبار جو مسلمانوں کے سیاسی اور سماجی شعور کو بیدار کرنے میں مددگار ثابت ہوا۔

تحریریں:

ان کے مضامین میں حکومتی ناانصافیوں کی مذمت اور مسلمانوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کی گئی۔


شاعری اور ادبی خدمات


مولانا جوہر ایک حساس شاعر تھے، جن کی شاعری میں آزادی، اسلامی اتحاد، اور انسانیت کے جذبات واضح نظر آتے ہیں۔ ان کی مشہور نظموں میں آزادی کے لیے ان کی گہری وابستگی جھلکتی ہے۔


شخصیت اور کردار

جذبہ حریت:

مولانا محمد علی جوہر کا ہر عمل آزادی اور انصاف کے لیے تھا۔

بے خوفی:

انہوں نے برطانوی سامراج کے خلاف کھل کر آواز بلند کی، چاہے انہیں قید و بند کی صعوبتیں ہی کیوں نہ جھیلنی پڑیں۔

اسلامی اتحاد:

مولانا نے مسلمانوں کو متحد کرنے کے لیے انتھک محنت کی اور اسلامی تشخص کے تحفظ کے لیے کام کیا۔


وفات

گول میز کانفرنس:

1930 میں لندن میں ہونے والی گول میز کانفرنس میں انہوں نے ہندوستان کی آزادی کے لیے برطانوی حکومت کو للکارا۔

انہوں نے کہا: “اگر مجھے اپنے ملک میں آزادی نہیں ملتی، تو میں اپنے خدا سے آزادی کی دعا کرنے کے لیے اپنے ملک واپس نہیں جاؤں گا۔”

انتقال:

مولانا محمد علی جوہر کا انتقال 4 جنوری 1931 کو لندن میں ہوا۔ ان کی تدفین یروشلم میں مسجد اقصیٰ کے قریب ہوئی۔


مولانا محمد علی جوہر کا تاریخی کردار


مولانا جوہر کا کردار تحریک آزادی کے لیے بنیادی اہمیت رکھتا ہے:

1. انہوں نے مسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ کے لیے ہر ممکن جدوجہد کی۔

2. آزادی کے لیے ان کی قربانیاں اور عزم تاریخ کا سنہری باب ہیں۔

3. صحافت، سیاست، اور مذہب کے میدان میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔


نتیجہ


مولانا محمد علی جوہر کا شمار ان رہنماؤں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ آزادی اور انصاف کے لیے وقف کیا۔ ان کی بے لوث خدمات اور بے مثال قربانیاں ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ہمیشہ مشعل راہ رہیں گی۔ ان کی شخصیت ایک تحریک ہے جو ہمیں حق، انصاف، اور آزادی کے لیے جدوجہد کا درس دیتی ہے۔


Previous Post Next Post