بلاول بھٹو زرداری پیدائش 21 ستمبر

بلاول بھٹو زرداری پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے سربراہ ہیں۔ اُن کا نام سندھ کے عظیم صوفی بزرگ شاعر اور فلسفی مخدوم بلاول بن جام حسن سمو کے نام پر رکھا گیا ہے جنہیں دسویں صدی ہجری میں اس وقت کے سندھ کے ارغون حکمران نے کوہلو میں پسوا کر قتل کرادیا تھا۔ بلاول کے معنی ہیں ’’ جس کا کوئی ثانی نہ ہو‘‘۔ ان کی پیدائش21ستمبر 1988کو کراچی کے لیڈی ڈفرن اسپتال میں ہوئی۔ بلاول بھٹو زرداری سابق وزیر اعظم پاکستان شہید محترمہ بے نظیر بھٹواور سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کی اولاد میں سب سے بڑے ہیں۔ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی شہید ذو الفقار علی بھٹو کے نواسے ہیں۔ ان کی پیدائش کے تین ماہ بعد ہی ان کی والدہ شہید بے نظیر بھٹو مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔
ابتدائی زندگی
بلاول بھٹو زرداری نے بچپن ہی سے اپنے والدین کی تکالیف کا اندازہ لگا لیا تھا ،تکالیف اور اذیت کاسفر ان کے عزم کی پختگی بھی ظاہر کرتاہے کیونکہ بچپن کی عمر میں ایک بچے کو اسکول سے لیکر عام زندگی میں کیا کیا تکالیف اور مشکلات پیش آتی ہیں وہ بلاول بھٹو زرداری سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا،بلاول بھٹو زرداری نے زندگی کے ہر موڑ پر بہت کچھ سیکھا اور سمجھا، بلاول کی علمی اور سیاسی تربیت ان کی والدہ نے کی جو دنیا کی بہترین یونیورسٹیز میں لیکچر دیتی تھیں،بلاول بھٹو نے بچپن میں ہی سیاست میں بھٹوکے اصولی افکار اور عوامی جذبوں سے سرشار نظریے کو سمجھ لیا تھا جس کے لیے بڑی عمر کی ضرورت ہوتی ہے۔
اپنی والدہ بے نظیر بھٹو شہید کے دوسرے دور حکومت میں انھوں نے ابتدائی تعلیم کراچی گرامراسکول سے حاصل کی۔ اس کے بعد انھوں نے فروبلس انٹرنیشنل اسکول ،اسلام آباد سے تعلیم حاصل کی۔

دبئی منتقل ہونے کے بعد انھوں نے اپنی تعلیم راشد پبلک اسکول دبئی میں جاری رکھی۔ جہاں وہ اسٹوڈنٹ کونسل کے نائب چیئرمین بھی رہے۔ راشد پبلک اسکول کا شمار دبئی کے بہترین اسکولز میں ہوتا ہے۔

1999میں اپنی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی خود ساختہ جلا وطنی کے وقت وہ اُن کے ساتھ ہی بیرون ملک چلے گئے۔ ،2007میں بلاول بھٹو نے برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کے سب سے اہم کالج کرائسٹ چرچ کا میں داخلہ لیا، برطانیہ کی آکسفرڈ یونیورسٹی سے ’بی اے آنرز‘ کی سند جدید تاریخ اور سیاست کے شعبے میں حاصل کی۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نواب زادہ خان لیاقت علی خان، اسرائیل کے سابق وزیر اعظم بینجمن نتین یاہو، پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی شہید ذو الفقار علی بھٹو اور مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم اور بلاول بھٹو کی والدہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی آکسفورڈ یونی ورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ بلاول بھٹوزرداری یہاں بھی طلبہ یونین میں سرگرم رہے۔ 2010میں انھوں نے اپنی تعلیم مکمل کرلی۔

آکسفورڈ یونی ورسٹی
برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کا شمار دنیا بھر کی بہترین یونیورسٹیز میں کیا جاتا ہے۔ آکسفورڈ دریائے آکس کے کنارے، انگلستان کاایک شہر ہے۔ اس کے معنی (دریائے آکس کا گھاٹ) کے ہیں۔ اس جگہ انگلستان کا مشہور اور قدیم دار العلوم واقع ہے۔ اس کی بنیاد قدیم زمانے میں رکھی گئی تھی۔ لیکن باقاعدہ تدریس کا آغاز 1133ء سے ہوا جب پیرس کے رابرٹ پولین نے یہاں تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ اس نے یونیورسٹی کی صورت 1163ء میں اختیار کی۔ آکسفورڈڈ یونیورسٹی جنوبی ایشیا میں خاصی معروف ہے جہاں سابق پاکستانی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو، ان کے والد ذو الفقار علی بھٹو، کرکٹ کھلاڑی اور سیاست دان عمران خان، سابق انڈین وزیر اعظم من موہن سنگھ اور ادیب وکرم سیٹھ کے علاوہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے مشہور شخصیات نے یہاں سے تعلیم حاصل کی ہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت
محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی شہید ذو الفقار علی بھٹو کی بڑی صاحبزادی تھیں۔ 21جون1953 میں سندھ کے مشہور سیاسی بھٹو خاندان میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم کراچی میں حاصل کی،15برس کی عمر میں اولیول کا امتحان پاس کی۔ انھوں نے آکسفورڈ یونی ورسٹی سے فلسفہ، معاشیات اورسیاسیات میں ایم اے کیا۔ 1977میں تعلیم حاصل کر کے وطن واپس آئیں۔ اسی دوران ملک میں مارشل لا کا نفاذ ہوا۔ ان کے والدشہید ذو الفقار علی بھٹو کو جیل بھیج دیا گیاجس کے بعد1979میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے انھیں پھانسی کی سزا سنادی۔ 1984میں بے نظیر کو جیل سے رہائی ملی۔ جس کے بعد انھوں نے دو سال تک برطانیہ میں جلاوطنی کی زندگی گزاری۔ اسی دوران میں پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے انھیں پارٹی کا سربراہ بنا دیا۔ 1986ء میں وہ وطن واپس آئیں۔ 1987ء میں آصف علی زرداری سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئیں۔2 دسمبر1988ء میں 35 سال کی عمر میں ملک اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیرِاعظم کے طور پر حلف اٹھایا۔ اگست1990میں ان کو برطرف کر دیا گیا۔ اکتوبر 1993عام انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے دوسری مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔ 1996میں ایک بار پھر ان کی حکومت کو برطرف کر دیا گیا۔ جس کے بعد انھوں نے جلا وطنی اختیار کرلی۔ 18 اکتوبر2007کو محترمہ بے نظیر بھٹو اپنی 8سالہ خود ساختہ جلاوطنی ختم کر کے وطن واپس آئیں۔ کراچی کے ہوائی اڈے سے لاکھوں افراد کے جلوس میں اُن کا قافلہ جب شارع فیصل کارساز کے مقام پر پہنچا تو وہاں ہونے والے دو بم دھماکوں سے یہ سفر وہیں رک گیا۔ اس واقعے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ڈیڑھ سو سے زائد کارکن جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوئے، محترمہ بے نظیر بھٹو اس بم حملے میں محفوظ رہیں۔ لیکن 27 دسمبر 2007کو راولپنڈ ی میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کے بعد اسلام آباد جاتے ہوئے بم حملے میں وہ شہید ہوگئیں۔ اس واقعے کو بلاول بھٹو زرداری نے چیلنج سمجھ کر قبول کیا اور اپنی والدہ کے اس نامکمل سیاسی سفر کو مکمل کرنے کا عہد کر لیا۔
سیاست کا آغاز
تعلیم مکمل کرنے کے بعد بلاول بھٹو زرداری 2011میں وطن واپس آئے اور سیاسی معاملات میں بڑ ھ چڑھ کر حصہ لیا۔ انھوں نے 2012میں باقاعدہ طور پر کراچی کے ایک بہت بڑے جلسے سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔ وہ ابتدا میں ملک کی سیاسی صورت حال اور دیگر معاملات پر اپنے تُند و تیز بیانات اور ٹوئٹرپر پیغامات کی وجہ سے ذرائع ابلاغ میں موضوع بحث رہے۔ کراچی کے اِس جلسے کو ملک میں پیپلز پارٹی کی طاقت کے مظاہرے کے طور پر بھی دیکھا گیا، کیوں کہ 2008 سے 2013تک بر سر اقتدار رہنے کے بعد یہ جماعت صرف صوبہ سندھ ہی میں حکومت بنا سکی تھی جس پر سیاسی حلقوں میں اس کی ساکھ سے متعلق چہ مگوئیاں ہوتی رہی تھیں۔

2015 میں آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کے اہم اختیارات اُن کے حوالے کردیے، لیکن پارلیمان کا رُکن بننے کے لیے کم از کم عمر25سال ہے۔ اسی قانون کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے 2013 کے انتخابات میں حصہ نہیں لیااور اب وہ لاڑکانہ سے قومی اسمبلی کی نشست کے لیے انتخاب میں حصہ لینے کا اعلان کر چکے ہیں۔ واضح رہے کہ بلاول بھٹو زرداری کے نانا شہید ذو الفقار علی بھٹو بھی کم عمر ی میں اسمبلی کے رکن بنے تھے۔ دو بار ملک کی وزیر اعظم رہنے والی محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے اپنی وصیت میں اپنے شوہر آصف علی زرداری کو اپنا سیاسی جانشین مقرر کیا،لیکن انھوں نے بلاول بھٹو زرداری کو پارٹی کا چیئرمین نامزد کر دیا اور اس طرح وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین کے عہدے پر فائز ہو گئے۔
سیاسی پارٹی کی سربراہی
بلاول بھٹو زرداری اپنی والدہ شہید بے نظیر بھٹو کی وفات کے بعد 30 دسمبر2007کو پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ نامز ہوئے۔ ان کا نام بلاول علی زرداری سے تبدیل کرکے بلاول بھٹو زرداری کر دیا گیا۔ بلاول بھٹو نے سیاست کے میدان میں اپنے نانا ذو الفقار علی بھٹو کا اثر قبول کیا۔ ان کی طلسماتی شخصیت اور انداز بیاں کو اپنایا اور اپنے نام کے ساتھ بھٹو کا نام جوڑ کر پاکستان پیپلز پارٹی کی فکر اور سوچ کو عوام تک منتقل کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ بلاول بھٹو کی پیپلز پارٹی کے چیئرمین کے عہدے پر تعیناتی کو ملک کے جمہوری حلقوں نے اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا کیوں کہ ملک کی سب سے بڑی جمہوری قوت ہونے کے ناتے پیپلز پارٹی کو اپنے سربراہ کا انتخاب جمہوری طریقے سے کرنا چاہیے تھا۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی کے اعلیٰ حلقوں کہنا تھا کہ بے نظیر بھٹو نے اپنی وصیت میں انتقال کے بعد آصف علی زرداری کو جماعت کی قیادت دینے کا مطالبہ کیا تھا لیکن انھوں نے قیادت کا بوجھ بلاول کے کاندھوں پر ڈال دیا۔