حفیظ جالندھری وفات 21 دسمبر

ابو الاثر حفیظ جالندھری پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے نامور مقبول رومانی شاعر اور افسانہ نگار تھے جنھوں نے پاکستان کے قومی ترانہ کے خالق کی حیثیت سے شہرتِ دوام پائی۔ ملکہ پکھراج نے ان کی نظم ابھی تو میں جوان ہوں کو گا کر شہرت دی۔
حفیظ جالندھری ہندوستان کے شہر جالندھر میں 14 جنوری 1900ء کو پیدا ہوئے۔ آزادی کے وقت 1947ء میں لاہور آ گئے۔ آپ نے تعلیمی اسناد حاصل نہیں کی، مگر اس کمی کو انہوں نے خود پڑھ کر پوری کیا۔ انھیں نامور فارسی شاعر مولانا غلام قادر بلگرامی کی اصلاح حاصل رہی۔ آپ نے محنت اور ریاضت سے نامور شعرا کی فہرست میں جگہ بنالی۔۔ حفیظ جالندھری پاک فوج میں ڈائریکٹر جنرل مورال، صدر پاکستان کے چیف ایڈوائزر اور رائٹرز گلڈ کے ڈائریکٹر کے منصب پر بھی فائز رہے۔
ادبی خدمات

حفیظ جالندھری گیت کے ساتھ ساتھ نظم اور غزل دونوں کے قادرالکلام شاعر تھے۔ تاہم ان کا سب سے بڑا کارنامہ شاہنامہ اسلام ہے جو چار جلدوں میں شائع ہوا۔ اس کے ذریعہ انہوں نے اسلامی روایات اور قومی شکوہ کا احیا کیا جس پر انہیں فردوسی اسلام کا خطاب دیا گیا۔ حفیظ جالندھری کا دوسرا بڑا کارنامہ پاکستان کا قومی ترانہ ہے اس ترانے کی تخلیق کی وجہ سے وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ حفیظ جالندھری نے یہ خوب صورت قومی ترانہ احمد جی چھاگلہ کی دھن پر تخلیق کیا تھا اور حکومت پاکستان نے اسے 4 اگست 1954ء کو پاکستان کے قومی ترانے کے طور پر منظور کیا تھا۔

حفیظ جالندھری کی شاعری کی خوبی اس کی غنائیت ہے۔ وہ خود بھی مترنم تھے اس لیے انہوں نے ایسی لفظیات کا انتخاب کیا جو غنائیت کے پیکر پر پورے اترتے ہیں۔ غنائیت کا سبب ان کی گیت نگاری بھی ہے۔ انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں فوجی گیت لکھے تھے اور گیت کو بھی انہوں نے نئے پیکر عطا کیے۔ شاید اسی لیے آج تک حفیظ جالندھری کی شناخت ابھی تو میں جوان ہوں کے حوالے سے کی جاتی ہے۔ بلا شبہ یہ ایک پر اثر گیت ہے کیوں کہ اس میں جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں وہ اپنی جگہ پر نگینے کی طرح جڑے ہوئے ہیں اور سامع کے دل پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ حفیظ کی غزلوں کا سرمایہ کافی ہے اور حفیظ خود کو غزل گو کہلوانا پسند کرتے تھے۔ انہوں نے غزل میں بہت سے نئے تجربات کیے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ سلیس زبان کا استعمال کیااور گرد و پیش کے واقعات کو اپنی غزلوں کا موضوع بنایا۔ ایک طرح سے انہوں نے غزل کو فطری پوشاک عطا کی۔ ان کے یہاں روایت سے بغاوت ملتی ہے۔
حفیظ کا اقبال

حفیظ علامہ اقبال سے بہت متاثر تھے اکثر اقبال کے ہاں حاضری دیتے۔ علامہ اقبال نے جب 1926 میں پنجاب لیجسلیٹیو اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا تو آپ کی انتخابی مہم میں حفیظ اکثر آپ کے ساتھ رہتے۔ حفیظ نے اپنے مضمون ’حفیظ کا اقبال‘ میں جہاں علامہ اقبال سے اُن کی بے تکلفی کا ذکر کیا ہے وہاں وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ ایک روز اقبال نے علی بخش کو جالندھر بھیج کر مجھے لاہور طلب کیا اور کہا کہ ’’حفیظ ! تم میرا مرثیہ لکھنا‘‘۔ حفیظ تحریر کرتے ہیں کہ اقبال نے اُن سے شاہنامہ میں سے ولادتِ رسول کے اشعار سنانے کی درخواست کی‘ جسے اُنہوں نے قبول کیا۔
تصانیف

حفیظ جالندھری کے شعری مجموعوں میں

نغمہ بار
تلخابہ شیریں
سوزو ساز
افسانوں کا مجموعہ ہفت پیکر،
گیتوں کے مجموعے ہندوستان ہمارا،
پھول مالی
بچوں کی نظمیں
اپنے موضوع پر ایک کتاب چیونٹی نامہ
شاہنامہِ اسلام 4جلد
بزم نہیں رزم

چراغِ سحر
تصویرِکشمیر
بہار کے پھول

نمونہ کلام
یہ کون ذی وقار ہے، بلا کا شہسوار ہے
جو ہے ہزاروں قاتلوں کے سامنے ڈٹا ہوا
یہ بلیقن حسینؑ ہے، نبیﷺ کا نوُرِعین ہے
جو ہے ہزاروں قاتلوں کے سامنے ڈٹا ہوا

شعر
دیکھا جوکھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی

شعر
ہم ہی میں تھی نہ کوئی بات یاد نہ تم کو آ سکے
تم نے ہمیں بھلا دیا ہم نہ تمہیں بھلا سکے

وفات
پاکستان کے قومی ترانہ اور شاہنامہ اسلام کے خالق حفیظ جالندھری 21 دسمبر 1982ء کو لاہور پاکستان میں 82 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ وہ مینار پاکستان کے سایہ تلے آسودہ خاک ہیں