عبدالقادر الجزائری نے فرانسیسی افواج کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔21 دسمبر

الجزائر کو فرانس کے تسلط سے بچانے کے لیے جس رہنما نے نمایاں اور قابل قدر کوشش کی اور تحریک آزادی کو عوامی مزاحمت بنادیا، وہ عبد القادر الجزائری ہیں۔

عبد القادر 1808ء میں ایک دیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں حاصل کرنے کے بعد 21 سال کی عمر میں حج کرنے مکہ معظمہ گئے۔ اس سفر کے دوران ان کو بغداد، دمشق اور قاہرہ میں قیام کرنے اور علما سے ملنے کا موقع بھی ملا۔ محمد علی پاشا والئی مصر اپنے ملک کو ترقی دینے کی جو کوششیں کر رہا تھا، عبد القادر اس سے بہت متاثر ہوئے۔

وہ اپنے سفر اس سے سال واپس الجزائر آئے جس سال فرانس الجزائر پر قابض ہوا تھا۔ نئی صورت حال نے عبد القادر کو بے چین کر دیا اور انہوں نے فرانس سے جنگ کرنے کا عزم کر لیا۔

اعلانِ جہاد
اس زمانے میں اندرون ملک مسلمانوں کی چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم تھیں جو آپس میں لڑتی رہتی تھیں اوراس قابل نہیں تھیں کہ متحد ہوکر فرانس کا مقابلہ کرسکیں۔ عبد القادر نے مختلف قبائل کے اختلافات ختم کیے اور ان کو اس پر آمادہ کر لیا کہ وہ متحد ہوکر فرانس کا مقابلہ کریں۔ ان قبائل نے 22 نومبر 1832ء کو عبد القادر (جن کی عمر اس وقت صرف 25 سال تھی) کو اپنا امیر مقرر کر لیا۔

الجزائری مسلمانوں کی قیادت سنبھالنے کے بعد امیر عبد القادر نے قصبہ مسکرہ کی مسجد میں فرانسیسیوں کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے جلد ہی مغربی الجزائر کے قبائل کو اپنے جھنڈے تلے متحد کر دیا اور فرانسیسی فوجوں کو کئی شکستیں دیں یہاں تک کہ فروری 1834ء میں فرانس عبد القادر کو مغربی الجزائر کا امیر تسلیم کرنے پر مجبور ہو گیا لیکن اگلے سال فرانس سے پھر تصادم شروع ہو گئے اور جنگوں کا یہ سلسلہ کئی سال جاری رہا۔

شکست و نظر بندی
1839ء تک امیر عبد القادر الجزائر کے ایک تہائی حصے پر قابض ہو گئے۔ اس کے بعد ان کی مشکلات بڑھ گئیں اور فرانسیسی فوجوں کی کثرت اور جدید اسلحے کی وجہ سے عبد القادر 21 دسمبر 1847ء کو امام شامل کی طرح ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گئے۔

چند سال نظر بند رکھنے کے بعد فرانسیسیوں نے امیر عبد القادر کو رہا کر دیا۔ وہ شروع میں بروصہ (ترکی) گئے اور پھر دمشق میں مستقل رہائش اختیار کرلی۔ یہاں سلطان عبدالمجید کے دور میں 1860ء میں جب دروزیوں نے مسیحی آبادی کا قتل عام کیا تو امیر عبد القادر نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر ہزاروں مسیحیوں کی جانیں بچائیں اور اپنے اس طرز عمل کی وجہ سے سارے یورپ میں خراج تحسین وصول کیا۔ امیر عبد القادر 26 مئی 1883ء میں انتقال کر گئے۔

انتظامِ مملکت
امیر عبد القادر نے جو نظام حکومت قائم کیا تھا اس میں آزاد علاقے دارالاسلام کہلاتے تھے اور فرانسیسی علاقے دارالکفر اور مسلمانوں کے لیے دارالکفر سے دارالاسلام میں آنا واجب تھا۔ امیر عبد القادر نے اپنے لیے امیر المومنین کا لقب اختیار کیا تھا اور مشورے کے لیے ایک مجلس شوریٰ بنائی تھی جو گیارہ علما پر مشتمل تھی۔ نظام حکومت مختلف امور کے وزیروں کی مدد سے چلایا جاتا تھا۔ ریاست مختلف انتظامی حصوں میں تقسیم تھی اور ہر حصے میں ایک قاضی ہوتا تھا جو امور مملکت کی شرعی اصولوں سے مطابقت پیدا کرنے کا ذمہ دار تھا۔ مشکل کے وقت علمائے فاس یا جامعہ ازہر کے مالکی شیخ سے فتویٰ منگایا جاتا تھا۔ امیر عبد القادر نے فوج کی جدید طرز پر تنظیم کی تھی اور اس سلسلے میں یورپی ممالک سے امداد بھی لی۔ بعض صورتوں میں امیر عبد القادر کی فوج مراکش کی فوج سے بہتر تھی۔ انہوں نے اپنی ریاست میں اسلحہ سازی اور بندوق سازی کا کارخانہ بھی قائم کیا تھا۔ الجزائر میں امیر عبد القادر کی یہ ریاست بالا کوٹ میں سید احمد کی شہادت کے ایک سال بعد قائم ہوئی۔ دونوں کی قائم کردہ ریاستوں میں بہت مماثلت تھی لیکن ایک بڑا فرق یہ تھا کہ امیر عبد القادر جدید دور کے تقاضوں اور ضرورتوں کو تحریک مجاہدین کے رہنماؤں کے مقابلے میں زیادہ بہتر طور پر سمجھتے تھے۔ شاید یورپ سے نزدیکی اور محمد علی پاشا سے تعلق اس کی بڑی وجہ ہو۔

الجزائر کی تاریخ میں عقبہ بن نافع اور خیر الدین باربروسا کے علاوہ کسی اور شخص کو وہ شہرت، عظمت اور نیک نامی حاصل نہیں ہوئی جو عبد القادر الجزائری کو حاصل ہوئی۔ انہوں نے آدمیوں اور وسائل کی کمی کے باوجود جس بے جگری سے فرانسیسی حملہ آوروں کا 15 سال تک مقابلہ کیا، اس کی مثالیں کم ملیں گی۔ مورخین نے ان کی انتظامی صلاحیت اور تدبر کی بہت تعریف کی ہے اور وہ اسلامی تاریخ کی ان ہستیوں میں سے ہیں جن کی ان کے مخالفین نے بھی دل کھول کر تعریف کی۔

ان کی شکست کے بعد الجزائر میں فرانس کا مقابلہ کرنے والا کوئی نہ رہا اور ایک سال کے اندر اندر فرانس پورے الجزائر پر قابض ہو گیا اور اسے فرانس کا ایک حصہ قرار دے دیا گیا۔

امریکی ریاست آئیووا کا ایک شہر القادر (Elkader) انہی سے موسوم ہے۔