سیماب اکبرآبادی پیدائش 5 جون

سیماب اکبر آبادی (پیدائش: 5 جون 1880— وفات: 31 جنوری 1951ء) اردو کے نامور اور قادرالکلام شاعر تھے۔
ان کا اصل نام عاشق حسین صدیقی تھا۔ سیماب آگرہ، اتر پردیش کے محلے نائی منڈی،کنکوگلی، املی والے گھر میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد، محمّد حسین صدیقی بھی شاعر اور حکیم امیرالدین اتتار اکبرآبادی کے شاگرد تھے اور ٹائمز آف انڈیا پریس میں ملازم تھے۔

تعلیم و تربیت
سیماب نے فارسی اور عربی کی تعلیم جمال‌ الدین سرحدی اور رشید احمد گنگوہی سے حاصل کی۔ اسکول گورنمنٹ کالج اجمیر سے الحاق شدہ برانچ اسکول سے میٹرک کیا۔ 1897 میں 17 سال کی عمر میں والد کا انتقال ہو گیا جس کی وجہ سے ایف اے کے آخری سال میں تعلیم ادھوری چھوڑ دی۔

ملازمت اور شادی
1898 میں ملازمت کے سلسلے میں کان پور گئے اور وہیں فصیح الملک داغ دہلوی کی شاگردی اختیار کی جو علامہ اقبال کے بھی استاد تھے۔ 1900 میں سکینہ بیگم سے شادی ہوئی۔ دیوہ شریف میں حاجی حافظ سید وارث علی شاہ کے دست مبارک پر بیعت کی۔ 1921 میں ریلوے کی ملازمت چھوڑ کر آگرہ میں مستقل سکونت اختیار کرلی اور قصرِ ادب کے نام سے ادبی ادارہ قائم کیا۔ ملازمت کے دوران ماہنامہ مرصع ، ماہنامہ پردہ نشین اور آگرہ اخبار کی ادارت کے فرائض انجام دیتے رہے۔

تصانیف اور ادبی خدمات
قصرِ ادب ادارے سے ماہنامہ پیمانہ جاری کیا۔ پھر بیک وقت ماہنامہ ثریا، ماہنامہ شاعر، ہفت روزہ تاج، ماہنامہ کنول، سہ روزہ ایشیا شائع کیا۔ ساغر نظامی جو سیماب اکبر آبادی کے شاگرد تھے وہ بھی قصر ادب سے وابستہ رہے۔ ان کی لکھی کتابوں کی تعداد 284 ہے جس میں 22 شعری مَجمُوعے ہیں جن میں “وحی منظوم” بھی شامل ہے جس کی اشاعت کی کوشش 1949 میں ان کو پاکستان لے گئی جہاں کراچی شہر میں 1951 میں انکا انتقال ہوا۔

مثنوی روم کا منظوم اردو ترجمہ
مولوی فیروز الدین کی فرمائش پر مثنوی مولانا روم کا منظوم اردو ترجمہ شروع کیا جس کے لیے وہ لاہور منتقل ہوئے اور اپنا ادارہ قصرادب بھی لاہور ہی لے آئے۔ مثنوی مولانا روم کو فارسی سے اسی بحر میں اردو میں منظوم ترانے کام شروع کیا اور اس کا نام الہام منظوم رکھا تقریبا 45 ہزار افراد 6 جلدوں میں ترتیب پائے۔ مولوی فیروز الدین کے بقول انہوں نے مثنوی روم کا منظوم اردو ترجمہ امیر مینائی سمیت کئی نامور شاعروں کے سپرد کرنا چاہا مگر یہ مشکل کام ان میں سے کسی کے بس کا نہ تھا۔

کرشن گیتا
ہندووں کی مذہبی کتاب بھگوت گیتا کے کچھ حصوں کا منظوم ترجمہ کرشن کیتا کے نام سے کتابی شکل میں شائع کیا۔

وحی منظوم
انیس سو چوالیس کے شروع میں قرآن مجید کا منظوم ترجمہ کرنے کا بیڑا اٹھایا اور دس ماہ میں منظوم ترجمہ مکمل کر کے علما کی خدمت میں پیش کر دیا۔ ستاروں کا ترجمہ ایک ہی بحر میں منظوم کیا گیا حاشیہ پر ضروری تشریح دی گئی علما کے تعریفی کلمات کتاب کے آخر میں شامل کیے گئے قرآن مجید کا یہ منظوم اردو ترجمہ “وحی منظوم” کے نام سے مشہور ہوا۔ 1981 کو اسلام آباد میں پندرہویں صدی ہجری کے سلسلہِ تقسیم انعامات میں قرآن پاک کے چار مختلف زبانوں کی کتابوں کو انعام سے نوازا گیا۔ وحی منظوم کتاب سرفہرست تھی۔

سیرت نبوی پر کتاب
انیس سو پچاس میں شیخ عنایت اللہ کی درخواست پر سیرت نبی پر مختصر اور انتہائی جامع کتاب ڈیڑھ ماہ کے مختصر عرصے میں جدید اسلوب اور دلنشین پیرائے میں لکھ کر پیش کردی۔

شاعری
1892 سے شعر کہنا شروع کر دیا تھا اور 1898 میں مرزا خان داغ دہلوی کے شاگرد ہو گئے تھے۔ 1923 میں قصر الادب کی بنیاد رکھی اور پہلے”پیمانہ” اور بعد میں 1929 میں “تاج” اور 1930 میں “شاعر” شائع کرنا شروع کیے۔ پیمانہ 1932 میں بند ہو گیا تھا۔

سیماب کا پہلا مجموعہِ کلام “نیستاں” 1923 میں چھپا تھا۔ 1936 میں دیوان کلیم عجم شائع ہوا اور اسی سال نظموں کا مجموعہ کار امروز منظر عام پر آیا۔
انتخاب کلام
عمر دراز مانگ کے لائی تھی چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
———–
دل کی بساط کیا تھی نگاہ جمال میں
اک آئینہ تھا ٹوٹ گیا دیکھ بھال میں
———–
مری خاموشیوں پر دنیا مجھ کو طعن دیتی ہے
یہ کیا جانے کہ چپ رہ کر بھی کی جاتی ہیں تقریریں
————–
روز کہتا ہوں کہ اب ان کو نہ دیکھوں گا کبھی
روز اس کوچے میں اک کام نکل آتا ہے
————-
تجھے دانستہ محفل میں جو دیکھا ہو تو مجرم ہوں
نظر آخر نظر ہے بے ارادہ اٹھ گئی ہوگی
————
پریشاں ہونے والوں کو سکوں کچھ مل بھی جاتا ہے
پریشاں کرنے والوں کی پریشانی نہیں جاتی
————-
وہ دنیا تھی جہاں تم بند کرتے تھے زباں میری
یہ محشر ہے یہاں سننی پڑے گی داستاں میری
———–
تیرے جلووں نے مجھے گھیر لیا ہے اے دوست
اب تو تنہائی کے لمحے بھی حسیں لگتے ہیں
———–
ہے حصول آرزو کا راز ترک آرزو
میں نے دنیا چھوڑ دی تو مل گئی دنیا مجھے
————
منزل ملی مراد ملی مدعا ملا
سب کچھ مجھے ملا جو ترا نقش پا ملا
————-
کہانی میری روداد جہاں معلوم ہوتی ہے
جو سنتا ہے اسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے
————-
مری دیوانگی پر ہوش والے بحث فرمائیں
مگر پہلے انہیں دیوانہ بننے کی ضرورت ہے
————
خدا اور ناخدا مل کر ڈبو دیں یہ تو ممکن ہے
میری وجہ تباہی صرف طوفاں ہو نہیں سکتا
———-
غم مجھے حسرت مجھے وحشت مجھے سودا مجھے
ایک دل دے کر خدا نے دے دیا کیا کیا مجھے
———-
مرکز پہ اپنے دھوپ سمٹتی ہے جس طرح
یوں رفتہ رفتہ تیرے قریب آ رہا ہوں میں
———-
کہانی ہے تو اتنی ہے فریب خواب ہستی کی
کہ آنکھیں بند ہوں اور آدمی افسانہ ہو جائے
———-
میں دیکھتا ہوں آپ کو حد نگاہ تک
لیکن مری نگاہ کا کیا اعتبار ہے
———-
چمک جگنو کی برق بے اماں معلوم ہوتی ہے
قفس میں رہ کے قدر آشیاں معلوم ہوتی ہے
————
بت کریں آرزو خدائی کی
شان تیری ہے کبریائی کی
—————
تعجب کیا لگی جو آگ اے سیمابؔ سینے میں
ہزاروں دل میں انگارے بھرے تھے لگ گئی ہوگی
————-
قفس کی تیلیوں میں جانے کیا ترکیب رکھی ہے
کہ ہر بجلی قریب آشیاں معلوم ہوتی ہے
————–
سیمابؔ دل حوادث دنیا سے بجھ گیا
اب آرزو بھی ترک تمنا سے کم نہیں
————–
سارے چمن کو میں تو سمجھتا ہوں اپنا گھر
جیسے چمن میں میرا کوئی آشیاں بنا
———–
نشاط حسن ہو جوش وفا ہو یا غم عشق
ہمارے دل میں جو آئے وہ آرزو ہو جائے
———–
دل آفت زدہ کا مدعا کیا
شکستہ ساز کیا اس کی صدا کیا