جلیل قدوائی وفات 1 فروری

جلیل قدوائی (پیدائش: 23 دسمبر، 1904ء – وفات: یکم فروری، 1996ء) اردو کے ممتاز نقاد، محقق، شاعر،مترجم، صحافی اور افسانہ نگار تھے۔
جلیل قدوائی 23 دسمبر، 1904ء کو اناؤ، اترپردیش،(اودھ) برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے ۔ علیگڑھ اور الہ آباد یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں لکچرر مقرر ہوئے۔ حکومت ہند کے محکمۂ اطلاعات ونشریات میں اسسٹنٹ انفارمیشن آفیسر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ تقسیم کے بعد پاکستان چلے گئے اور وزارت اطلاعات ونشریات میں کئی اعلی عہدوں پر اپنی خدمات انجام دیں۔

وہ بیک وقت شاعر، افسانہ نگار، محقق، بلند پایہ نقاد، مترجم اور صحافی تھے۔ ان کی کتب میں گلدستہ تنقید، چند اکابر، چند معاصر، قطرات شبنم، مکتوباتِ عبد الحق، تذکرے اور تبصرے، خاکسترپروانہ (شاعری)، حیات مستعار (خودنوشت)، نقش و نگار (شاعری)، نوائے سینہ تاب (شاعری)، انتخاب شعرائے بدنام اور سیر گل (افسانہ) سرِ فہرست ہیں۔
جلیل قدوائی یکم فروری، 1996ء کو راولپنڈی، پاکستان میں وفات پا گئے۔ وہ کراچی میں سپردِ خاک ہوئے۔
تصانیف
چند اکابر، چند معاصر
گلدستہ تنقید
تذکرے اور تبصرے (تنقید)
قطرات شبنم
مکتوباتِ عبد الحق (ترتیب)
خاکسترپروانہ (شاعری)
نقش و نگار (شاعری)
نوائے سینہ تاب (شاعری)
انتخاب شعرائے بدنام (انتخاب)
تنقیدیں اور خاکے (تنقید)
حیات مستعار (خودنوشت)
دیوان بیدار (ترتیب)
انتخاب حسرت (انتخاب)
سیر گل (افسانہ)
اصنام خیالی (12 مختصر افسانے)
مانا دانا (ڈراما، ترجمہ)
ماموں جان (ڈراما، ترجمہ)
حسنِ انتخاب
کارنامۂ ادب
تجزیے اور تجربے (تنقید)
کلامِ غالب (نسخۂ قدوائی) (غالبیات)

غزل

زوروں پہ بہت اب مری آشفتہ سری ہے

یہ حال ہے خود سے بھی مجھے بے خبری ہے

جب سے نہیں آغوش میں وہ جان تمنا

اک سل ہے کہ ہر وقت کلیجے پہ دھری ہے

ان کی جو میسر نہیں شاداب نگاہی

پھولوں میں کوئی رنگ نہ سبزے میں تری ہے

مانا کہ محبت کے ہیں دشوار تقاضے

بے یار کے جینا بھی تو اک درد سری ہے

لپکا ہے یہ اک عمر کا جائے گا نہ ہرگز

اس گل سے طبیعت نہ بھرے گی نہ بھری ہے

اک ان کی حقیقت تو مرے دل کو ہے تسلیم

باقی ہے جو کونین میں وہ سب نظری ہے

آنکھوں میں سماتا نہیں اب اور جو کوئی

کیا جانے بصیرت ہے کہ یہ بے بصری ہے

جاگو گے شب غم میں جلیلؔ اور کہاں تک

سوتے نہیں کیوں؟ نیند تو آنکھوں میں بھری ہے