سلیم اول وفات 22 ستمبر

سلیم اول المعروف سلیم یاووز (عثمانی ترکی: سليم اوّل، جدید ترکی: I.Selim یا Yavuz Sultan Selim) (پیدائش: 10 اکتوبر 1470ء— انتقال 22 ستمبر 1520ء) 1512ء سے 1520ء تک سلطنت عثمانیہ کے سلطان تھے۔ سلیم کے دور میں ہی خلافت عباسی خاندان سے عثمانی خاندان میں منتقل ہوئی اور مکہ و مدینہ کے مقدس شہر عثمانی سلطنت کا حصہ بنے۔ اس کی سخت طبیعت کے باعث ترک اسے “یاووز” یعنی “درشت” کہتے ہیں۔
انہوں نے اپنے والد بایزید ثانی کو تخت سے اتارا اور خود حکومت سنبھالی۔

فتوحات
سلیم اول سلطنت عثمانیہ کے عظیم فاتحین میں سے ایک تھا اور اس کی خصوصیت یہ تھی کہ اس نے مغرب کی جانب پیش قدمی کی بجائے مشرق کو میدان جنگ بنایا کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ جب تک سلطنت عثمانیہ کے برابر میں صفوی اور مملوک حکومتیں قائم ہیں تب تک یورپ میں پیش قدمی نہیں کی جاسکتی۔ اس نے جنگ مرج دابق اور جنگ ردانیہ میں مملوکوں کو شکست دے کر شام، فلسطین اور مصر کو عثمانی قلمرو میں شامل کیا۔ مملوکوں کی اس شکست سے حجاز اور اس میں واقع مکہ و مدینہ کے مقدس شہر بھی عثمانی سلطنت کے زیر اثر آ گئے۔ اس فتح کے بعد قاہرہ میں مملوکوں کے زیر نگیں آخری عباسی خلیفہ المتوکل ثالث سلیم اول کے ہاتھوں خلافت سے دستبردار ہو گیا اور یوں خلافت عباسی خاندان سے عثمانی خاندان کو منتقل ہو گئی۔

مملوکیوں کو 1516ء اور 1517ء کے عرصہ میں شکست ہوئی جبکہ ان کی مملکت اپنے بڑھاپے کی عمر کو پہنچ چکی تھی اور ان کی تاریخ کا آخری صفحہ قلم بند ہونا تھا۔ بحثیت ایک بہت بڑی اسلامی طاقت کے خواہ مشرق اوسط میں یا پوری دنیا میں وہ اپنا تشخص اور اپنے شباب کو برقرار رکھنے پر اپنی قدرت کھو بیٹھے تھے۔ سو ان کی حکومت زوال پذیر ہوئی اور ان کے زیر نگیں علاقے عثمانیوں کے قبضے میں چلے گئے۔

سلیم نے اپنے لیے حاکم الحرمین کی بجائے خادم الحرمین الشریفین کا لقب پسند کیا اور خلافت حاصل کرکے خلیفہ و امیر المومنین کہلایا۔

مصر سے نمٹنے کے بعد سلیم نے ایران کی صفوی سلطنت کے خلاف جنگ کا آغاز کیا اور شاہ اسماعیل اول کو جنگ چالدران میں بدترین شکست دی اور صفویوں کے دار الحکومت تبریز پر بھی قبضہ کر لیا تاہم اس نے قدرت پانے کے باوجود ایران کو اپنی سلطنت میں شامل نہیں کیا۔ عثمانیوں اور صفویوں کے درمیان میں جنگوں کی وجہ سے یورپیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور یوپیوں نے دولت عثمانیہ کے خلافت شیعہ صفوی ملک کی مدد کی ٹھان لی تاکہ عثمانی یورپ پر آئندہ کبھی بھی حملہ نہ کر سکیں اور صفویوں سے الجھتے رہیں۔

ڈاکٹر عبدالعزیز سلیمان نواز لکھتے ہیں”۔۔۔۔۔اسماعیل شاہ نے دولت عثمانیہ جو ایک بہت بڑی طاقت بن چکی تھی اور بحر متوسط اور صفوی کے درمیان میں حائل ہوگئی تھی کے خلاف حلیفوں کی تلاش سے کوئی گریز نہ کیا۔ وہ کسی بھی شخص سے معاہدہ کرنے کے لیے تیار تھا حتٰی کہ پرتگالی جو اسلامی پانیوں میں اپنے خلاف ایک بہت بڑی اسلامی فوج کی مزاحمت سے خائف تھے چاہتے تھے کہ کوئی ایسا ہو جو اس علاقے میں ان کی مدد کرے۔ باوجود اس کے کہ ہرمزکا ملک جو ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے پرتگالیوں کے آنے سے بہت بری طرح متاثر ہوا اور اس کی تجارت اور اقتصادیات کو کافی نقصان پہنچا مگر پھر بھی شاہ اسماعیل اپنی ذاتی مصلحتوں اور عثمانیوں کے ساتھ کینہ کی وجہ سے پرتگالیوں کے ساتھ ہر قیمت پر صلح کرنے کے لیے تیار ہو گیا۔ اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ اس نے بہت ہی معمولی فائدے کے بدلے ہرمزپر پرتگالی قبضے کو تسلیم کر لیا۔ لیکن پرتگالیوں نے اپنے حلیف شاہ اسمائیل کو یہ فرصت ہی کب دی تھی کہ وہ فائدہ اٹھاتا لیکن شاہ اسماعیل کی یہ پالیسی پرتگالیوں کے خلیج پر تسلط میں معاون ثابت ہوئی۔”

اپنے دور حکومت میں سلیم نے عثمانی سلطنت کا رقبہ 25 لاکھ مربع کلومیٹر سے 65 لاکھ مربع کلومیٹر تک پہنچادیا۔

مصر کی مہم سے واپسی کے بعد سلیم نے جزیرہ رہوڈس پر چڑھائی کی تیاری شروع کی تاہم اس دوران میں وہ بیمار پڑ گیا اور 9 سال تک پایۂ تخت سنبھالنے کے بعد انتقال کرگیا۔ اس وقہ اس کی عمر 54 سال تھی۔

سلیم فارسی اور ترک دونوں زبانوں میں شاعری بھی کرتا تھا۔

سلطان سلیم اور اس کے اباؤاجداد کو ایک عظیم مقام حاصل ہوا جو لقب خلافت کے استعمال سے پوری مطابقت رکھتا ہے۔ بالخصوص اس وقت جب قاہرہ میں جو مرکز خلافت تھا کوئی دم خم نہیں رہا تھا۔ سلیم کی فتوحات نے اسے طاقت اور روحانی و مادی اقتدار عطا کردیا تھا۔ بالخصوص حرمین شریفین کے دولت عثمانیہ میں ضم ہونے کے بعد تو سلیم کی طاقت اور اقتدار پہلے سے کہیں بڑھ گیا تھا۔ اور عثمانی سلطنت کمزور مسلمانوں کی پناہ گاہ بن گیا تھا۔ جس کی طرف وہ امید بھری نظروں سے دیکھ رہےتھے اور ایشاء و افریقہ اسلامی بندرگاہوں پر پرتگالیوں کے حملے کے بعد اس کی مدد پر یقین رکھتے تھے۔

مصر کے اندر عثمانی حکومت
ڈاکٹر علی حسون نے اپنی کتاب ” تاریخ عجائب الآثارفی التراجم والاخبار” جلد اول میں عظیم سلاطین عثمانی کے عہد میں مصر کے اندر عثمانی حکومت کے خدوخال کے بارے میں کچھ باتیں نقل کی ہیں

“مصر ایک دفعہ پھر خلافت اسلامی کی طرف لوٹ آیا جیسا کہ وہ ابتدائی اسلامی دور میں تھا جب سلطان سلیم مصر کے تخت حکومت پر براجمان ہوا تو تمام جراکسہ کو معاف کر دیا۔ مصری سلاطین کے اوقاف سے کچھ تعرض نہ کیا۔ بلکہ اوقاف، منافع، چراگاہوں اور حرمین شریفین کی آمدنی اور محاصل کے لیے درجات مقرر کر دیے۔ یتیموں، مشائخ اور معذوروں کے لیے وظائف مقرر کیے۔ قلعوں کی تعمیر اور صوفیاء کے مصارف کا بندوبست کیا۔ مظالم، لوٹ کھسوٹ اور تمام ناجائز ٹیکسز ختم کر دیے۔ تمام علاقوں میں نظم و نسق پیدا کیا۔ جب سلطان سلیم اول فوت ہوا تو ان کا بیٹا غازی سلطان سلیمان علیہ الرحمتہ و الرضوان تخت نشین ہوا۔ جنہوں نے بہترین اصول حکمرانی کی بنیاد رکھی، اعلیٰ مقاصد کی تکمیل کی، ملک کے تمام علاقوں میں نظم و نسق پیدا کیا۔ اندھیروں کی مٹایا، دین کے مینار کو بلند کیا۔ کافروں کی آگ کو بھسم کیا۔ تمام علاقے ان کی سلک حکومت میں پورے طرح منظم رہے۔ اور ان کے حکم کے پابند اپنے ابتدائی دور حکومت میں خلفاء راشدین کے بعد ملت اسلامیہ کے امور کو سب سے بہتر انداز میں سرانجام دینے والے ، دین کے سب سے زیادہ محافظ اور مشرکین کے خلاف سب سے زیادہ جہاد کرنے والے تھے۔ اسی لیے ان کی محروسہ مملکت کی حدود دور دور تک جا پہنچیں کیونکہ اللہ کریم نے ان کے اور ان کے خلفاء کے ہاتھوں بہت سارے علاقے فتح فرمادیے اس سب کچھ کے علاوہ انہیں یہ سعادت بھی حاصل تھی کہ وہ حکومتی معاملات میں، سرحدوں کی حفاظت میں، اسلامی شعائر کے قیام سنت محمدیہ کے التزام میں، علماء دیندار بطقہ کی تعظیم اور حرمین شریفین کی خدمت میں کسی طرح کی غفلت نہیں برتتےتھے۔”

حجاز مقدسہ پر عثمانیوں کی عملداری
حجاز مقدس مملوکیوں کےتابع تھا۔ جب شریف مکہ “برکات بن محمد” کو معلوم ہوا کہ سلطان غوری اور اس کا نائب طومان بائی قتل ہو چکے ہیں تو انہوں نے فوراَسلطان سلیم اول کی اطاعت قبول کر لی اور کعبہ شریف کی چابیاں مع بعض تبرکات کے ان کے حوالے کر دیں۔ سلطان نے شریف حجاز برکات کو اپنے منصب پر باقی رکھا اور انہیں وسیع اختیار تفویض کیے۔

اور اس طرح سلطان سلیم کو حرمین شریفین کے خادم ہونے کی سعادت بھی حاصل ہو گئی۔ اب سلطان سلیم عالم اسلامی کا سب سے طاقتور فرماں روا تھا۔ اور اس کی قدر و منزلت پہلے سے کہیں بڑھ گئی تھی بالخصوص جب دولت عثمانیہ نے مقدس مقامات کے لیے بہت سے اوقاف قائم کئے۔ ان اوقاف کی آمدنی قصر سلطانی میں ایک مستقل خزانہ میں جمع ہوتی تھی۔ حجاز مقدس کے عثمانیوں کے زیر نگیں آنے کی وجہ سے بحراحمر پرعثمانیوں کو غلبہ حاصل ہوگیا اور حجاز مقدس اور بحراحمر سے پرتگالی خطرہ ٹل گیا۔ اور یہ غلبہ اٹھارویں صدی کے اختتام تک باقی رہا۔