ثناء اللہ امرتسری پیدائش 12 جون

ابو الوفاء ثناء اللہ امرتسری (ولادت: 12 جون 1868ء – وفات: 15 مارچ 1948ء) معروف عالم دین، مفسرِ قرآن، محدث، مؤرخ، صحافی، ادیب، خطیب و مصنف تھے جو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ فاتح قادیان، سردار اہل حدیث، شیرِ پنجاب اور مناظرِ اسلام آپ کے القابات ہیں۔ مولانا ثناء اللہ جمعیت علمائے ہند کی بانی شخصیات میں سے ہیں۔ مولانا نے 1906ء سے 1947ء تک مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے جنرل سیکرٹری کے فرائض سر انجام دیا اور ہفت روزہ اہل حدیث کے ایڈیٹر بھی تھے۔آپ انجمن اہل حدیث پنجاب کے صدر تھے۔ ثناء اللہ امرتسری جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بانیوں میں سے ہیں۔

مولانا ثناءاللہ مرزا غلام احمد اور احمدیہ تحریک کے بڑے مخالف تھے۔ مولانا غلام رسول قاسمی، مولانا احمد اللہ امرتسری، مولانا احمد حسن کانپوری، حافظ عبدالمنان وزیر آبادی اور میاں نذیر حسین محدث دہلوی سے علوم دینیہ حاصل کیے۔ مسلک کے لحاظ سے اہل حدیث تھے اور اپنے مسلک کی ترویج کے لیے تمام زندگی کوشاں رہے۔ اخبار اہل حدیث جاری کیا۔ اور بہت سی کتاب لکھیں۔ فن مناظرہ میں مشاق تھے۔ سینکڑوں کامیاب مناظرے کیے۔ مشہور تصنیف تفسیر القرآن بکلام الرحمن (عربی) ہے۔ دوسری تفسیر ’’تفسیرِ ثنائی ‘‘ (اردو) ہے۔

1903ء میں جب ثناء اللہ امرتسری کی تفسیر القرآن بکلام الرحمٰن شائع ہوئی اور مولانا ثناءاللہ نے اس تفسیر میں آیات صفات کی تفسیر سلفی عقاید کی بجائے حجۃ اللہ شاہ ولی الله دہلوی کی پیروی میں تاویل کی راہ اختیار کی تھی۔ اس کی وجہ سے غزنوی علمائے اہل حدیث نے ثناء اللہ امرتسری کی بشدت مخالفت کی۔

ثناء اللہ امرتسری کی تفسیر ثنائی کو قرآن مجید کی اردو تفاسیر میں خاص اہمیت حاصل ہے۔ تفسیر ثنائی 8 جلدوں میں ہے۔ اس کی تکمیل میں 36 سال کا عرصہ لگا۔ 1895ء میں اس تفسیر کی پہلی جلد اور 18 فروری 1931ء کو آخری جلد شائع ہوئی۔ تفسیر ثنائی ایک آسان، مختصر اور مخالفین اسلام کے اعتراضات کے جواب پر مشتمل تفسیر ہے۔
مولانا ثناءاللہ کے والد نام محمد خضر جو اور تایا کا اسم گرامی اکرام جو تھا۔ آبا و اجداد کا تعلق کشمیری پنڈتوں کی ایک شاخ منٹو خاندان سے تھا۔ یہ لوگ علاقہ دوڑ کے رہنے والے تھے جو تحصیل اسلام آباد ضلع سری نگر میں واقع ہے۔ کشمیر کے زیادہ تر لوگ پشمینے کی تجارت کیا کرتے تھے۔ مولانا ثناءاللہ کے والد اور تایا کا بھی یہی کاروبار تھا۔ مولانا کا خاندان 1860ء میں کشمیر کے ڈوگرا حکمران راجا رنبیر سنگھ کی ستم رائیوں سے تنگ آ کر امرتسر میں سکونت پزیر ہوئے۔ یہ وہ دور تھا جب برصغیر پر انگریز کی حکمرانی تھی اور یہ خطہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ مولانا کی عمر 7 سال تھی کہ اُن کے والد کی وفات ہو گئی۔ ان کے بڑے بھائی کا نام ابراہیم تھا۔ انہوں نے ا ن کو رفوگری پر لگا دیا۔ چودہ سال کی عمر میں والدہ بھی خالق حقیقی سے جا ملیں۔

تحصیل علم
جب مولانا ثناء اللہ 14 سال کے ہوئے تو پڑھنے کا شوق پیدا ہوا اور آپ مولانا احمداللہ رئیس امرتسرکے مدرسہ تائید الاسلام میں داخلہ لیا اور درس نظامی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ اس کے بعد آپ نے وزیرآباد میں استاد پنجاب حافظ عبد المنان محدث وزیر آبادی سے تفسیر، حدیث، فقہ اور دوسرے علوم حاصل کیے۔ وزیر آباد سے تکمیل تعلیم کے بعد سید نذیر حسین دہلوی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور استاد کی سند دکھا کر تدریس کی اجازت حاصل کی۔ دہلی میں سید نذیر حسین سے اجازت لے کرسہارن پور مدرسہ مظاہرالعلوم میں پہنچے اور کچھ عرصہ یہیں قیام کیا اور پھر دیوبند تشریف لے گئے۔ دیوبند میں موالانا محمود حسن دیوبندی سے علوم عقلیہ ونقلیہ او رفقہ و حدیث کی تعلیم حاصل کی۔ دیوبند سے فراغت کے بعد مولانا ثناءاللہ کانپور مدرسہ فیض عام چلے گئے اور وہاں احمداحسن کان پوری صاحب سے علم معقول ومنقول کے علاوہ علم حدیث میں بھی استفادہ کیا۔

مولانا ثناءاللہ فرماتے ہیں:

” علم حدیث میں نے تین مختلف درس گاہوں سے حاصل کیا۔ خالص اہل حدیث، خالص حنفی، بریلوی عقیدہ۔ پنجاب میں حافظ عبد المنان میرے شیخ الحدیث تھے۔
دیوبند میں مولانا محمود الحسن اور کانپور میں مولانا احمد حسن میرے شیخ الحدیث تھے۔ میں نے حدیث تین استادوں سے طرز تعلیم سیکھا۔ وہ بالکل ایک دوسرے مختلف تھا۔

مولوی فاضل
1900ء میں مولانا ثناء اللہ نے مدرسہ مالیٹر اسلامیہ کوٹلہ سے علیحدگی اختیار کرنے کی اور واپس امرتسر پہنچے اور تصانیف و تالیف کا کام شروع کیا۔ 1902ء میں آپ نے جامعہ پنجاب سے مولوی فاضل کا امتحان امتیازی نمبروں میں پاس کیا۔

بعد فراغت
کانپور سے فراغت کے بعد مولانا ثناء اللہ اپنے وطن امرتسر واپس آئے اور مدرسہ تائید الاسلام میں جہاں سے تعلیم کاآغاز کی تھا درس و تدریس پر مامور ہو گئے اور 6 سال تک یہیں پڑھاتے رہے۔

ابوالوفا نے آغاز عمر سے ہی مختلف مذاہب اور مکاتب فکر کے عقائد وخیالات کی تحقیق تنکیج کا عمدہ زوق رکھتے تھے۔ آپ نے جس فضا میں آنکھ کھولی تھی اس میںآریہ سماج نے ملک میں انتشار پھیلا رکھا تھا، آئے دن اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف دل آزاد کتابیں شائع کرتے رہتے تھے اور سرزمین ہند میں اسلام کے نام و نشان مٹا دینے کا عزم رکھتے تھے۔۔اس کے علاوہ عیسائی 1857ء میں مکمل سیاسی غلبہ حاصل کر لینے کے بعد اسلامی افکار عقائد اور تمدن وثفاقت کے خلاف انتہائی جارحانہ رویہ اختیار کر رکھا تھا۔ ان کے پادری بر صغیر میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک دندناتے پھرتے تھے۔اسی فضا میں قادیانیوں کے سربراہ مرزا غلام احمد قادیانیکے دعوئے مسیحیت سے اسلامی حلقوں میں ہلچل مچی ہوئی تھی۔