نظیرؔ اکبر آبادی یومِ وفات 16؍اگست

*میر تقی میرؔ کے ہم عصر اور با کمال شاعر” نظیرؔ اکبر آبادی “ کا یومِ وفات…*

*نظیرؔ اکبر آبادی* کا نام *سیّد ولی مّحمد* تھا *نظیرؔ* تخلص کرتے تھے ۔ *۱۷۳۵ء* میں *دلی* میں پیدا ہوئے ، نظیر اپنے والدین کی تیرہویں اکلوتی نرینہ اولاد تھے نظیر کی پیدائش پر بڑی دھوم دھام ہوئی ، رقص وسرود کی محفلیں آراستہ کی گئیں ۔ اور ان کی پرورش بڑے پیار اور نگہداری کے ساتھ کی گئی۔ نظیر چار سال کے تھے کہ دلی کی تباہی کی وجہ سے ان کی والدہ انہیں آگرہ لے کر چلی گئیں ۔
ان کی ابتدائی تعلیم آگرہ میں ہی ہوئی ۔ نظیر کا خاندان ثروت مند تھا اس لئے انہوں نے اپنا بچپن اور جوانی کے ایام بہت آرام وآسائش میں گزارے ۔ خاندان اور ماحول کے اثر سے سپہ گری کے فن میں کمال حاصل کیا اور بھی بہت سے کھیلوں میں ان کو گہری دلچسپی تھی ۔ روزگار کی تلاش ہوئی تو نظیر نے معلمی کا پیشہ اختیار کیا ، متھرا میں بچوں کو تعلیم دیتے تھے ۔
*نظیرؔ اکبر آبادی میرؔ، سوداؔ ،جرأت ، انشاؔ اور مصحفیؔ* کے ہم عصر تھے ۔ یہ دور وہ تھا جس میں اردو کی کلاسیکی شاعری اپنے عروج پر تھی اور غزل کی صنف تخلیقی اظہار کا سب سے اہم ذریعہ سمجھی جاتی تھی ۔ *نظیرؔ اکبر آبادی* کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اس عہد میں اردو شاعری کو بالکل ایک نئے اور انوکھے تجربے سے آشنا کیا ۔ نظیر نے اپنی شاعری کیلئے موضوعات اپنے آس پاس بکھری ہوئی زندگی سے چنے ۔ عوامی زندگی کا شاید ہی کوئی ایسا پہلو ہو جس کو نظیر نے شاعری میں نہ برتا ہو ۔
*ہولی ، دیوالی ، بسنت ، راکھی ، شبِ برات ، عید ، پتنگ بازی ، کبوتر بازی ، برسات*۔
نظیر کی شاعری کی زبان بھی اردو کی معیاری زبان اور لب ولہجے کے علاوہ عوامی بول چال کی زبان ہے ۔ نظیر نے موضوعات بھی عوامی زندگی سے اٹھائے اور ان کو بیان کرنے کیلئے زبان بھی انہیں کی استعمال کی۔ *١٦؍اگست ١٨٣٠ء* کو *نظیرؔ اکبر آبادی* داعیٔ اجل کو لبیک کہہ گئے ۔

🌹✨ *پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ*

💐 *ممتاز شاعر نظیرؔ اکبر آبادی کے یومِ وفات پر منتخب بطورِ خراجِ عقیدت…* 💐

اکیلا اس کو نہ چھوڑا جو گھر سے نکلا وہ
ہر اک بہانے سے میں اس صنم کے ساتھ رہا

باغ میں لگتا نہیں صحرا سے گھبراتا ہے دل
اب کہاں لے جا کے بیٹھیں ایسے دیوانے کو ہم

*دل کی بیتابی نہیں ٹھہرنے دیتی ہے مجھے*
*دن کہیں رات کہیں صبح کہیں شام کہیں*

*دور سے آئے تھے ساقی سن کے مے خانے کو ہم*
*بس ترستے ہی چلے افسوس پیمانے کو ہم*

ہم حال تو کہہ سکتے ہیں اپنا پہ کہیں کیا
جب وہ ادھر آتے ہیں تو تنہا نہیں آتے

*حسن کے ناز اٹھانے کے سوا*
*ہم سے اور حسن عمل کیا ہوگا*

*جس کام کو جہاں میں تو آیا تھا اے نظیرؔ*
*خانہ خراب تجھ سے وہی کام رہ گیا*

*جو خوشامد کرے خلق اس سے سدا راضی ہے*
*سچ تو یہ ہے کہ خوشامد سے خدا راضی ہے*

*جدا کسی سے کسی کا غرض حبیب نہ ہو*
*یہ داغ وہ ہے کہ دشمن کو بھی نصیب نہ ہو*

کوچے میں اس کے بیٹھنا حسن کو اس کے دیکھنا
ہم تو اسی کو سمجھے ہیں باغ بھی اور بہار بھی

*کیوں نہیں لیتا ہماری تو خبر اے بے خبر*
*کیا ترے عاشق ہوئے تھے درد و غم کھانے کو ہم*

مے پی کے جو گرتا ہے تو لیتے ہیں اسے تھام
نظروں سے گرا جو اسے پھر کس نے سنبھالا

*نہ گل اپنا نہ خار اپنا نہ ظالم باغباں اپنا*
*بنایا آہ کس گلشن میں ہم نے آشیاں اپنا*

تھا ارادہ تری فریاد کریں حاکم سے
وہ بھی اے شوخ ترا چاہنے والا نکلا

*سب کتابوں کے کھل گئے معنی*
*جب سے دیکھی نظیرؔ دل کی کتاب*

بندے کے قلم ہاتھ میں ہوتا تو غضب تھا
صد شکر کہ ہے کاتب تقدیر کوئی اور

سرچشمۂ بقا سے ہرگز نہ آب لاؤ
حضرتِ خضر کہیں سے جا کر شراب لاؤ

آنکھوں میں میری صبح قیامت گئی جھمک
سینے سے اس پری کے جو پردہ الٹ گیا

اک دم کی زندگی کے لیے مت اٹھا مجھے
اے بے خبر میں نقشِ زمیں کی نشست ہوں

اشکوں کے تسلسل نے چھپایا تنِ عریاں
یہ آبِ رواں کا ہے نیا پیرہن اپنا

لکھیں ہم عیش کی تختی کو کس طرح اے جاں*
قلم زمین کے اوپر دوات کوٹھے پر*

گئے تھے ملنے کو شاید جھڑک دیا اس نے*
میاں نظیرؔ تو کچھ شرمسار آتے ہیں*

تھا ارادہ تری فریاد کریں حاکم سے*
وہ بھی اے شوخ ترا چاہنے والا نکلا*

تھے ہم تو خود پسند بہت لیکن عشق میں*
اب ہے وہی پسند جو ہو یار کو پسند*