نعیم صدیقی وفات 25 ستمبر

معروف شاعر
حلقہادباسلامی کے گل سرسبد
بانی مدیر سیارہ
نعیم صدیقی
کا یوم وفات ہے۔

محسنِ_انسانیت جیسی لازوال کتاب سے
عالم گیر شہرت پانے والے
مولانا نعیم صدیقی
کا اصل نام فضل الرحمن تھا۔
آپ ٤ جون 1914ء کوخطہ پوٹھوہار کی مردم خیز دھرتی ،چکوال کے گاؤں خانپور میں پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم قاضی سراج الدین صاحب مرحوم کی نگرانی میں حاصل کرنے کے بعد قریب ہی کے ایک مدرسے سے فارسی میں سند فضیلت حاصل کی۔
پھر منشی فاضل کا امتحان پاس کرنے کے بعد تحریک_اسلامی میں شمولیت اختیار کی اور سیدابوالاعلیٰ مودودی سے کسبِ فیض کیا۔ تحریر و تقریر ہر دو میدانوں میں آپ نمایاں مقام رکھتے تھے۔ آپ کی شاعری حُسن و جمال کا مرقع اور پاکیزگی و سلامت روی کا اعلیٰ نمونہ تھی۔
آپ کی صحافتی زندگی کا آغاز ملک نصر اللہ خاں عزیز کے اخبار ’’مسلمان‘‘سے ہوا ۔
ہفت روزہ ایشیا، ماہنامہ ترجمان القرآن، چراغِ راہ، شہاب، سیارہ میں ادارتی خدمات سرانجام دیں اور روزنامہ تسنیم لاہور، قاصد لاہور اور جسارت کراچی اور ہفت روزہ تکبیر کراچی میں کالم نویسی اور مضمون نگاری کرتے رہے۔
تحریک ادب اسلامی کی ابتداء 1942ء میں آپ کی ادارت میں نکلنے والے ماہنامہ ’’ چراغ راہ‘‘ کراچی سے ہوئی۔
تصانیف
۔۔۔۔۔۔۔
آپ 20 سے زائد کتابوں کے مصنف تھے۔جن میں سرفہرست محسنِ انسانیتؐ ، المودودی ،تحریکی شعور ،تحریک اسلامی دوسری اجتماعی تحریکوں کے مقابل میں ،حق و باطل ،اپنی اصلاح آپ ،بنیاد پرستی ،بیمہ زندگی ، کمیونزم یا اسلام ،ہندستان کے فسادات اور ان کا علاج ،نور کی ندیاں رواں،افشاں (مجموعہ انتخابِ کلام)اورنغمہ احساس
شامل ہیں ۔
آپ کی جس کتاب کو سب سے زیادہ شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی وہ سیرت رسول اللہﷺپر آپ کی تصنیف ’’محسن انسانیت‘‘ہے۔ نعیم صدیقی حرکت وعمل سے بھرپور ایک طویل اور انتہائی سادہ اور کفایت شعار زندگی گزارتے ہوئے تقریبا اٹھاسی سال کی عمر میں25 ستمبر2002ء کو اس دارفانی سے کوچ کرگئے۔ اور علامہ اقبال ٹاون کے کریم بلاک قبرستان میں مدفون ہوئے۔
منتخب کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ حسن و وفا کے دیوانے پھر عشق کی راہ میں کام آئے
اے کاش تماشا کرنے کو خود توبھی کنارِ بام آئے

الفاظ نہ تھے’ آواز نہ تھی ‘ نامہ بھی نہ تھا ‘ قاصد بھی نہ تھا
ایسے بھی کئی پیغام گیے ‘ ایسے بھی کئی پیغام آئے

ہم گرچہ فلک پرواز بھی ہیں اور تاروں کے ہم راز بھی ہیں
صیاد پہ آیا رحم ہمیں خود شوق سے زیرِ دام آئے

یہ بات الگ ہے ‘پاس رہا کچھ تشنہ لبی کی غیرت کا
ہم پر بھی رہا ساقی کا کرم ‘ ہم تک بھی بہت سے جام آئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس بازوئے قاتل کو چومو‘ کس شان کا کاری وار کیا
مقتول صریحا مجرم تھاٗ کیوں سچائی سے پیار کیا

اس جور کو سب نے دیکھ لیا ٗ جو تم نے سر بازار کیا
اس ظلم کو دنیا کیا جانے ٗ جو تم نے پس دیوار کیا

دل پیش خدا کچھ اور جھکا ٗ سر پیش بتاں کچھ اور اٹھا
تھا ایک انوکھا سجدہ جو عاشق نے کنار دار کیا

سویا ہوا سورج کیا جانے ٗ اس لمبی رات میں کیا بیتی
اک ایک کرن کو چن چن کر ٗ ڈائن نے ذلیل و خوار کیا

کچھ زخم دلوں سے ہم نے چنے ٗ اک ہار پرویا زخموں کا
اس ہار کو دست قدرت نے ظالم کے گلے کا ہار کیا

کیا خوب کہ ہے معتوب وہیٗ مغضوب وہی ٗ مطلوب وہی
تاریخ بشر کو جس جس نے خوں دے کے گل و گلزار کیا

صیاد تری صیادی کی اب داد بھی کوئی کیا دے گا
سامان ہزار آزار کیا ٗ اور بند لب گفتار کیا

یہ ملت احمد مرسل ہے اک ذوق شہادت کی وارث
اس گھر نے ہمیشہ مردوں کو مقتل کیلئے تیار کیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نعت

تُو رسُولِﷺ حق، تُو قبولِ حق، ترا تذکرہ ہے فلک فلک
تُو ہے مُصطفیٰﷺ، تُو ہے مجتبیٰﷺ، ترا نعت خواں ہے ملک ملک
ترے سوز و سازِ فراق سے رہی ساری رات بہت کسک
سرِ شام سے دمِ صبح تک نہ لگی پلک سے ذرا پلک
ترے سب زماں، ترا کل مکاں! ترے مہر و مہ، تری کہکشاں
تُو اِدھر سے اُٹھ، تُو اُدھر سے آ، تُو یہاں چمک، تُو وہاں دمک
ادب، انکسار، غنا، حیا، غمِ حشر، صدق، صفا، دُعا
جو یہ سات رنگ ہوئے بَہم، تری شخصیت کی بنی دھنک
نہ زمیں ہی میری قرار گہہ، نہ فلک ہی منزلِ شوق ہے
بڑی دیر تک ہے سفر مرا، تری یاد سے تری یاد تک
ابھی غار میں، ابھی بدر میں، ابھی فرش پر، ابھی عرش پر
کبھی یہ ادا، کبھی وہ ادا، کبھی یہ جھلک، کبھی وہ جھلک
وہ جو تم نے خُم سے مرے لئے کوئی چاندنی سی انڈیل دی
ہے کوئی صدی کا یہ واقعہ، مرے جام میں ہے ابھی چمک

.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سید ابو الاعلیٰ مودودی کو
نعیم صدیقی کا منظوم خراج تحسین

ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺍﺏ ﯾﮩﺎﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ
ﻃﻮﯾﻞ ﺭﺍﮨﻮﮞ ﺳﮯ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮ !
ﺑﮍﮮ ﺗﺤﯿّﺮ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﻮ؟
ﻗﺮﯾﺐ ﺁﺅ، ﺑﺘﺎﺅ، ﺳﻤﺠﮭﺎﺅ،
ﮐﺲ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﭼﯿﺰ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﻮ؟
ﭘﺘﮧ ﯾﮧ ﺗﻢ ﮐﺲ ﮐﺎ ﭘﻮﭼﮭﺘﮯ ﮨﻮ؟
ﻭﮦ ﮐﻮﻥ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﻮ ﮈﮬﻮﻧﮉﺗﮯ ﮨﻮ؟
ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺍﺏ ﯾﮩﺎﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ
ﻭﮦ ﺍﮎ ﺷﺠﺮ ﺗﮭﺎ ﻣﺜﻞ ﻃﻮﺑﯽٰ
ﺗﻢ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭼﮭﺎﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ
ﺩﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﮐﮫ ﺩﺭﺩ ﮐﻮﻟﺘﮯ ﺗﮭﮯ
ﺳﻮﺍﻝ ﭘﯿﭽﯿﺪﮦ ﭘﻮﭼﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ
ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﺣﮑﯿﻢِ ﺣﻠﯿﻢ ﺳﮯ ﺳﻦ ﮐﮯ
ﺣﺮﻑِ ﺍﺧﻼﺹ ﺟﮭﻮﻣﺘﮯ ﺗﮭﮯ
ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺍﺏ ﯾﮩﺎﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ
ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺍﺏ ﺍﮎ ﺳﺤﺮ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ
ﺟﮩﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻼ ﮨﻮﺍ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ
ﺭﮦِ ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﺳﭙﺎﮨﯿﻮﮞ ﮐﯽ
ﺩﻋﺎﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺭﭼﺎ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ
ﺳﺘﯿﺰﮦ ﮔﺎﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﮞ ﻟﮍﺍﺅ
ﻭﮨﺎﮞ ﻭﮦ ﺧﻮﺩ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺁ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ
ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺍﺏ ﯾﮩﺎﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ
ﻭﮦ ﺗﯿﺰ ﺩﮬﺎﺭﺍ ﮨﮯ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮐﺎ
ﮐﮩﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﻣﻘﺎﻡ ﺍﺱ ﮐﺎ
ﻭﮦ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺟﺬﺑﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﺷﺎﻣﻞ
ﺟﻮ ﻟﮯ ﮐﮯ ﻧﮑﻠﯿﮟ ﭘﯿﺎﻡ ﺍﺱ ﮐﺎ
ﺍﻗﺎﻣﺖِ ﺩﯾﻦِ ﺣﻖ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ
ﺟﻮ ﮐﺮﺗﮯ ﭘﮭﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﺎﻡ ﺍﺱ ﮐﺎ
ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺍﺏ ﯾﮩﺎﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ
ﮐﺘﺎﺏِ ﺩﻭﺭﺍﮞ ﮐﮯ ﮨﺮ ﻭﺭﻕ ﭘﺮ
ﺣﯿﺎﺕ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺭﻗﻢ ﺷﺪﮦ ﮨﮯ
ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﺳﯿﻨﻮﮞ ﮐﺎ ﺩﺭﺩ ﭘﻨﮩﺎﮞ
ﻓﻐﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﮩﻢ ﺷﺪﮦ ﮨﮯ
ﮐﺌﯽ ﺻﺪﯼ ﮐﺎ ﺟﮩﺎﺩِ ﭘﯿﮩﻢ
ﻣﺴﺎﻋﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺿﻢ ﺷﺪﮦ ﮨﮯ
ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺍﺏ ﯾﮩﺎﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ
ﻧﻈﺎﻡ ﺍﺳﻼﻡ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ ﺟﺐ
ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺗﺎﺯﮦ ﻇﮩﻮﺭ ﮨﻮﮔﺎ
ﺟﮩﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﻮﺭِ ﻧﺸﻮﺭ ﮨﻮﮔﺎ
ﻭﻗﻮﻉِ ﻣﺤﺸﺮ ﺿﺮﻭﺭ ﮨﻮﮔﺎ
ﻭﮦ ﺩﮮ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺧﺒﺮ ﺳﺤﺮ ﮐﯽ
ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﺍ ﺑﺎﻃﻞ ﮐﺎ ﺩﻭﺭ ﮨﻮﮔﺎ
ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺍﺏ ﯾﮩﺎﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ
ﻧﮩﯿﮟ ﻭﮦ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮔﻮ ﺑﻈﺎﮨﺮ
ﺟﮕﮧ ﺟﮕﮧ ﮨﮯ ﺳﺮﺍﻍ ﺍﺱ ﮐﺎ
ﻭﮨﯽ ﮨﮯ ﺳﺎﻗﯽ، ﺍﺳﯽ ﮐﯽ ﻣﺤﻔﻞ
ﺍﯾﺎﻍ ﺍﺱ ﮐﺎ، ﭼﺮﺍﻍ ﺍﺱ ﮐﺎ
ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﺩﻝ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺟﻦ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ
ﺟﮭﻠﮏ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺩﻣﺎﻍ ﺍﺱ ﮐﺎ
ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺍﺏ ﯾﮩﺎﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ
ﺫﺭﺍ ﺳﮯ ﺧﺎﮐﯽ ﻭﺟﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ
ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺑﺮﺳﻮﮞ ﺗﻠﮏ ﺳﻤﭧ ﮐﺮ
ﺑﺪﻥ ﮐﺎ ﺑﻮﺳﯿﺪﮦ ﺧﻮﻝ ﭨﻮﭨﺎ
ﻏﺒﺎﺭِ ﺧﺎﮐﯽ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﭼﮭﭧ ﮐﺮ
ﺷﻌﺎﻭﮞ ﮐﮯ ﭘﺮ ﻟﮕﺎ ﮐﮯ ﺍﺏ ﻭﮦ
ﺣﻀﻮﺭِ ﯾﺰﺩﺍﮞ ﮔﯿﺎ ﭘﻠﭧ ﮐﺮ
ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺍﺏ ﯾﮩﺎﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ
ﻧﮧ ﺭﻭﺅ ﺍﺱ ﮐﻮ ﮐﮧ ﺟﻠﻮﮦ ﻓﺮﻡ
ﻭﮦ ﮐﮩﮑﺸﺎﮞ ﺗﺎ ﺑﮧ ﮐﮩﮑﺸﺎﮞ ﮨﮯ
ﻓﺮﺍﺯِ ﺟﻨّﺖ ﮐﮯ ﺳﺒﺰﮦ ﺯﺍﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ
ﺭﻭﻧﻖِ ﺑﺰﻡ ﻗﺪﺳﯿﺎﮞ ﮨﮯ
ﮨﻮﺍ ﻣﻘﺮّﺏ ﻭﮦ ﺍﻧﺒﯿﺎُ ﮐﺎ
ﻭﮦ ﺁﺝ، ﻣﺨﺪﻭﻡ ﻧﻮﺭﯾﺎﮞ ﮨﮯ
ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺍﺏ ﯾﮩﺎﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نظم
تاریخ نے پوچھا‘ اے لوگو!یہ دنیا کس کی دنیا ہے
شاہی نے کہا یہ میری ہے
اور دنیا نے یہ مان لیا
پھر تخت بچھے ‘ ایوان سجے ‘ گھڑیال بجے ‘ انسان مرے
تلوار چلی اور خون بہے ‘ انسان لڑے ‘ انسان مرے
دنیا نے بالآخر شاہی کو پہچان لیاپہچان لیا
تاریخ نے پوچھا پھر لوگو یہ دنیا کس کی دنیا ہے
دولت نے کہا یہ میری ہے
اور دنیا نے یہ مان لیا
پھر بنک کھلے ‘ بازار جمے ‘ بازار جمے بیو پار بڑھے
انسان لٹے ‘ انسان بکے ‘ آرام اڑے سب چیخ اٹھے
دنیا نے بالآخر دولت کو پہچان لیاپہچان لیا
تاریخ نے پوچھا پھر لوگو یہ دنیا کس کی دنیا ہے
محنت نے کہا یہ میری ہے
اور دنیا نے یہ مان لیا
پھر روح دبی ‘پھر پیٹ بڑھے افکار بڑھے کردار گرے
ایمان لٹے ‘اخلاق جلے ‘ انسان نرے حیوان بنے
دنیا نے بالآخر محنت کو پہچان لیا پہچان لیا
تاریخ نے پوچھا پھر لوگو
یہ دنیا کس کی دنیا ہے
مومن نے کہا اﷲ کی ہے
اور دنیا نے یہ مان لیا
پھر قلب و نظر کی صبح ہوئی ‘اک نورکی لے سی پھوٹ بہی
اک اک خودی کی آنکھ کھلی ‘فطرت کی صدا پھر گونج اٹھی
دنیا نے بالآخر آقا کو
پہچان لیا پہچان لیا
لیا۔۔۔