ونسٹن چرچل وفات 24 جنوری 1965

برطانوی سیاستدان ۔ لارڈ رنڈولف چرچل کا بڑا لڑکا۔ چرچل کی ماں جینی امریکی یہودی تھی ہیرو اور سنڈھرسٹ میں تعلیم پائی۔ ہندوستان کی شمال مغربی سرحد اور پھر جنوبی افریقا میں سپاہی اور اخباری نمائندہ رہا۔ بوئروں کی جنگ میں گرفتار ہوا۔ مگر بچ نکلا۔ 1901ء میں پہلی بار پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہوا۔ اور مختلف عہدوں پرفائز رہا۔

نو آبادیوں کا نائب سیکرٹری۔1905ء تا 1908ء
صدر بورڈ آف ٹریڈ۔ 1908ء تا 1910ء
ہوم سیکرٹری۔1910ء تا 1911ء
ناظم اعلٰی امارت بحری۔ 1911ء تا 1915ء
دوبارہ ۔ 1939ء تا 1940ء
وزیر اسلحہ۔ 1917ء
وزیر جنگ ۔ 1918ء تا 1921ء
وزیر فضائیہ۔1919ء تا 1921ء
وزیر خزانہ۔ 1924ء تا 1929ء
درہ دانیال کی مہم کی ناکامی کے بعد سیاست سے کنارہ کش ہوگیا۔

1936ءتا 1938ء وزیراعظم چیمبرلین کی ہٹلر کو خوش کرنے کی پالیسی کی بڑی شدومد سے مخالفت کی جس کے سبب دوبارہ سیاست کے افق پر ابھرا۔ دوسری جنگ عظیم کے شروع ہونے پر ناطم امارات بحری کی حیثیت سے کابینہ میں شامل ہوا۔ اور مئی 1940ء میں وزیراعظم بنا۔ جنگ کے بعد 1945ء لیبر پارٹی برسر اقتدار آئی تو قائد حزب اختلاف منتخب ہوا۔ اور اس دوران میں سوویت یونین اور اس کے مغربی اتحادیوں کے مابین مناقشت کے بیج بوئے۔ سوویت یونین کے بارے میں “آہنی پردہ” کی اصطلاح اسی کی ایجاد ہے۔ اکتوبر 1951ء کے انتخابات میں قدامت پسند پارٹی کو دوبارہ منظم کیا۔اکتوبر 1951ء کے انتخابات میں قدامت پسند پارٹی کی جیت ہوئی۔ تو دوبارہ وزیراعظم بنا اور 1955ء میں پیرانہ سالی کے سبب ریٹائر ہوگیا۔

ونسٹن چرچل اعلٰی درجے کا مدبر لیکن انتہائی قدامت پرست سیاست دان تھا۔ دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کے شکست میں اس کی مدبرانہ سوچ نے اہم کردار ادا کیا۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اگر چرچل نہ ہوتا تو شاید آج دنیا کی تاریخ کچھ اور ہوتی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد اس نے مغربی طاقتوں کو سوویت یونین کو ختم کرنے پر اکسایا لیکن امریکی صدر روزویلٹ نے ، عالمی رائے عامہ کے خوف سے اس کی سخی سے مخالفت کی۔ آخر دم تک برطانوی نوآبادیوں کی آزادی کی مخالفت کرتا رہا۔ مصوری سے خاص شغف تھا۔ کئی کتابوں کا مصنف ہے۔ جن میں تاریخ جنگ عظیم دوم دو جلدوں کی صورت میں شائع ہو چکی ہے۔ 1953ء میں اسے ادب کا نوبیل انعام دیا گیا۔

’’V‘‘یعنی وکڑی کا نشان بھی چرچل ہی کی دین ہے۔

چرچل سخت متعصب شخص تھا، فلسطینی قوم کو اپنے ملک فلسطین سے بے دخل کرنے اور امریکی مقامی باشندوں کے مغربی استحصال پر چرچل کا بیان:

“میں یہ تسلیم نہیں کرتا کہ کتا اپنے ڈربہ کا مالک ہوتا ہے خواہ وہ اس ڈربے میں کافی عرصے سے رہ رہا ہو۔ مثال کے طور پر میں یہ تسلیم نہیں کرتا کہ امریکا میں قدیم باسیوں (ریڈ انڈین) یا آسٹریلیا کے کالے قدیم باسیوں کے ساتھ کوئی بڑی زیادتی ہوئی ہے۔ میں یہ تسلیم نہیں کرتا کہ ایک طاقتور نسل، ایک بہتر نسل یا ایک عقل مند نسل نے آ کران کی زمین پر قبضہ کر لیا تو کوئی ظلم ہوا۔”
“I don’t admit that the dog in the manger has the final right to the manger, even though he may have lain there for a very long time. I don’t admit, for instance, that a great wrong has been done to the Red Indians of America, or the black people of Australia. I don’t admit that a wrong has been done to those people by the fact that a stronger race, a higher grade race, or, at any rate, a more worldly-wise race, to put it that way, has come in and taken their place.”

1943کے بنگال کے قحط کے بارے میں ونسٹن چرچل نے کہا تھا

“مجھے ہندوستانیوں سے نفرت ہے۔یہ جنگلی لوگ ہیں اور ان کا مذہب بھی جنگلی ہے۔ قحط ان کی اپنی غلطی ہے کیونکہ وہ خرگوشوں کی طرح آبادی بڑھاتے ہیں”۔ (حالانکہ بنگال کا قحط برطانیہ کا سوچا سمجھا منصوبہ تھا-
Talking about the Bengal famine in 1943, Churchill said: “I hate Indians. They are a beastly people with a beastly ligion. The famine was their own fault for breeding like rabbits.”

چرچل نے پشتون قبائل کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کی منظوری دی تھی۔

In fact, the warlike Pashtun tribes along the Durand Line, the artificial border between Pakistan and Afghanistan imposed by the British colonialists, have been on the warpath since the 19th Century. Winston Churchill even approved the use of poison gas on the unruly tribesmen.
ہندوستان کی آزادی سے پہلے چرچل نے یہ بیان دیا تھا۔

“Indians are fit to be ruled, they can never be rulers, if we leave them to rule themselves the country will disintegrate in less than 20 years”۔
“If independence is granted to India, power will go to the hands of rascals, rogues, freebooters; all Indian leaders will be of low caliber and men of straw. They will have sweet tongues and silly hearts. They will fight amongst themselves for power and India will be lost in political squabbles. A day will come when even air and water will be taxed in India.”

اسلام کے بارے میں اس نے کہا تھا کہ

“How dreadful are the curses which Mohammedanism lays on its votaries! Besides the fanatical frenzy, which is as dangerous in a man as hydrophobia in a dog, there is this fearful fatalistic apathy. The effects are apparent in many countries. Improvident habits, slovenly systems of agriculture, sluggish methods of commerce, and insecurity of property exist…”

Leave a Reply