احمد رشدی وفات 11 اپریل

احمد رُشدی (24 اپریل، 1934ء – 11 اپریل، 1983ء) پاکستان کی فلمی صنعت کے ایک مایہ ناز اور ورسٹائل گلوکار تھے۔ بر صغیر پاک وہند میں رُشدی کا نام اور ان کی آواز کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ آواز کے اس جادوگر نے ریڈیو پر نغموں سے اپنے سفر کی ابتدا کی۔ نغمگی کا یہ سفر بہت کامیاب رہا۔ انہوں نے اردو، گجراتی، بنگالی، بھوجپوری کے علاوہ کئی زبانوں میں گیت گائے۔ احمد رُشدی کی خاصیت تھی کہ وہ جس فنکار کے لیے گاتے، اسی کی آواز اور اسی کے انداز کو اپناتے۔ آج کے دور میں فلموں کے کئی مشہور گلوکار رُشدی کو ہی اپنا استاد مانتے ہیں۔ انہوں نے تقریباً 583 فلموں کے لیے 5000 گانے گائے۔
احمد رُشدی کا تعلق ایک قدامت پسند سید گھرانے سے تھا۔ ان کے والد سید منظور احمد حیدرآباد دکن میں عربی اور فارسی کے استاد تھے۔ ان کا رُشدی کے بچپن میں ہی انتقال ہو گیا تھا۔ رُشدی بچپن سے ہی موسیقی کے شوقین تھے۔ انہوں نے پہلا گیت ہندوستان کی فلم “عبرت”(1951ء) کے لیے گایا۔ پھر پاکستان آ کر 1954ء میں “بندر روڈ سے کیماڑی” گا کر شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔ اس کے بعد رُشدی نے کبھی پیچھے مڑ کے نہیں دیکھا۔ بڑے بڑے گلوکار ان کے آگے بجھ کر رہ گئے۔

رُشدی کا فن
احمد رُشدی نے موسیقی کی تربیت باقاعدہ کسی استاد سے حاصل نہیں کی تھی بلکہ ان کی یہ صلاحیت خداداد تھی۔ موسیقی اور گائکی ان کی رگ رگ میں رچی ہوئی تھی۔ رُشدی ہندوستان کے مشہور فلمی گلوکار کشور کمار کے بھی آئڈل تھے اور کشور نے انگلستان میں رُشدی مرحوم کے گانوں پر پرفارم کیا۔ انہوں نے غزل کی گائکی میں بھی اپنی ایک منفرد طرز ایجاد کی۔ چاکلیٹ ہیرو اداکار وحید مراد کے ساتھ رُشدی کی جوڑی بہت کامیاب رہی۔ اس جوڑی کے سارے نغمے ہٹ ہوئے ۔ ان کے انتقال کو برسوں گزرنے کے بعد اب یہ ثابت ہو گیا ہے کہ احمد رُشدی جیسا گلوکار پاکستان کی فلمی صنعت کو نہیں مل سکتا۔

انعامات او ر اعزازات
احمد رُشدی کو بے شمار ایوارڈز ملے ۔ پاکستان کے صدر پرویز مشرف کی حکومت نے رُشدی کو “ستارہ ا متيا ز” کے ایوارڈ سے بھی نوازا۔ انکا نام پاکستان میں سب سے زیادہ گیت گانے والے گلوکار کے طور پر آیا۔ 5000 سے زیادہ نغمے گائے اور وہ سارے گیت آج بھی لوگوں کی زبان پر ہیں۔

انہوں نے ﮐﮁﮭ فلموں میں بھی کام کیا۔ رُشدی نے بہت خوبصورت تلفظ کے ساﮅﮭ نہ صرف اردو بلکہ بنگالی، اوڑیا‘ کننڈا، پنجابی، تامل، تلگو او ر مراٹھی میں بھی اپنی آواز پیش کی۔ کئی مرتبہ انہوں نے بغیر معاوضہ لیے موسیقاروں کے لیے گیت گائے۔ وہ بہت سیدھے انسان تھے۔ احمد رُشدی نے کئی نسلوں کو اپنی آواز سے متاثر کیا ہے۔

تاثرات
احمد رُشدی نے پس پردہ گلوکاری میں بہت نام کمایا۔ ان کے گائے ہوئے مقبول طربیہ، المیہ فلمی گیت اور غزلیں ان کی اعلیٰ فنی صلاحیتوں کا ثبوت ہیں۔ تیس سالہ کیرئیر میں رُشدی کی مترنم اور پرتاثر آواز کا جادو سر چڑھ کر بولا۔ گیت چاہے چنچل ہوتا یا پْردرد، اونچے سروں میں ہوتا یا دھیمے سروں میں، سننے والوں سے شرف قبولیت حاصل کر کے رہتا۔ انہوں نے نامور گلوکاروں کے مقابل وقت کے معروف موسیقاروں کی دھنوں کو پوری فنی مہارت سے گایا۔ فلمی موسیقی کے زرخیز دور میں رُشدی کو پسندیدہ ترین گلوکار کا درجہ حاصل رہا۔ جو شھرت ان کو حاصل تھی وہ ان کی زندگی میں کسی اور گلوکار کو حاصل نہیں ہو سکی۔

وفات
روک اینڈ رول کے بادشاہ اور آواز کے جادوگر احمد رُشدی 11 اپریل 1983 کو کراچی میں 48 برس کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔ آپ کو کراچی میں ہی دفن کیا گیا۔ ان کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جو مرنے کے بعد بھی دنیا میں بہت زیادہ مقبول ہیں۔