محمد حمید اللہ وفات 17 دسمبر

ڈاکٹر محمد حمید اللہ (پیدائش: 9 فروری، 1908ء، انتقال : 17 دسمبر، 2002ء) معروف محدث، فقیہ، محقق، قانون دان اور اسلامی دانشور تھے اور بین الاقوامی قوانین کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ تاریخ حدیث پر اعلیٰ تحقیق، فرانسیسی میں ترجمہ قرآن اور مغرب کے قلب میں ترویج اسلام کا اہم فریضہ نبھانے پر آپ کو عالمگیر شہرت ملی۔
آپ 9 فروری، 1908ء کو اور بعض حوالوں کے مطابق 19 فروری، 1908 کو مملکت آصفیہ کے شہر حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ آپ نے اپنے ایک مکتوب بنام مظہر ممتاز قریشی میں اپنی تاریخ پیدائش 16 محرم، 1326 ہجری بیان کی ہے جو عیسوی تقویم کے مطابق بروز بدھ 19 فروری، 1908ء کو قرار پاتی ہے۔
خاندانی پس منظر

آپ 8 بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ والد کا نام محمد خلیل اللہ تھا جو خود بھی ایک ادیب اور عالم شخصیت تھے۔ ڈاکٹر حمید اللہ کے دادا محمد صبغت اللہ نے بھی بہت سی کتابیں مختلف زبانوں میں تصنیف کی ہے۔ انہوں نے 29 کتابیں عربی میں، 24 فارسی میں اور 14 اردو میں لکھیں۔ اسی وجہ سے اُن کے دادا کا نام بھی عظیم علما میں شامل ہے۔
ابتدائی تعلیم

ڈاکٹر صاحب کا گھرانا انتہائی روحانی اور صوفی گھرانا تھا۔ جدید تعلیم کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ خاندانی روایات کے مطابق آپ نے گھر میں ابتدائی تعلیم کے بعد جامعہ نظامیہ میں داخلہ لیا اور 1924ء میں مولوی کامل کا درجہ مکمل کیا۔ بعد ازاں، گھر والوں کو بتائے بغیر، انگریزی زبان کی اہمیت کے پیش نظر میٹرک کے امتحان کی تیاری کے بعد میڑک کا امتحان بھی دیا اور امتیازی حیثیت سے کامیاب ہوئے۔ اُن کے والد کو مقامی اخبارات کے ذریعہ ڈاکٹر صاحب کی کامیابی کی اطلاع ملی۔ اس کامیابی کے بعد انہوں نے بیٹے کی مزید حوصلہ افرائی کی۔
اعلیٰ تعلیم

1924ء میں آپ نے جامعہ عثمانیہ میں داخلہ لیا اور اسلام، علم قانون میں ایم اے اور ایل ایل بی کی سند جامعہ عثمانیہ سے 1930ء میں حاصل کی۔ جامعہ عثمانیہ کی جانب سے اسلامی قوانین بین الاقوامی میں ڈاکٹریٹ کے لیے آپ کو فیلوشپ سے نوازا گیا۔ 1932ء میں جامعہ بون، جرمنی سے آپ نے ڈی فل کی سند حاصل کی اور پھر اسی جامعہ میں عربی و اردو کے استاد کی حیثیت سے متعین ہوئے۔ جرمنی میں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد آپ نے ڈاکٹریٹ کی ایک اور سند کے لیے فرانسیسی دار الحکومت پیرس کی معروف جامعہ سوربون میں داخلہ لیا۔ 11 ماہ کے مختصر عرصے میں آپ نے ڈی لٹ کی سند حاصل کی۔
درس و تدریس

1935 میں اپنے آبائی شہر آنے کے بعد انھوں نے جامعہ عثمانیہ میں بطور لیکچرر اور اسسٹنٹ پروفیسر 1948 تک خدمات سر انجام دیں۔ اس کے علاوہ برسوں تک دنیا کی مختلف جامعات میں درس و تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔
لسان

آپ اردو، عربی، فرانسیسی، جرمن، قدیم و جدید ترکی، اطالوی، فارسی، انگریزی اور روسی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ آپ نے 7 زبانوں میں تحریر و تحقیق کا کام کیا۔ انگریزی اور اردو کے علاوہ انہوں نے فرانسیسی، جرمن، عربی، فارسی اور ترکی زبان میں بھی مضامین اور کتابیں لکھی۔
تحریر و تحقیق

آپ نے تحقیق کے مقاصد کے لیے متعدد اسلامی اور یورپی ممالک کا دورہ بھی کیا۔ جن میں عہد نبویؐ کے میدان جنگ نامی کتاب کے سلسلے میں نجد و حجاز کے ان میدانوں کا سفر بھی کیا اور تاریخی مواد اکٹھا کیا۔ انگریزی میں جب یہ کتاب شا ئع ہوئی تو اس میں نقشے وغیرہ بھی شامل تھے لیکن اردو کے ناشرین سے اس امر کا خیال نہ رکھا اور اسے درسی کتب کے حجم میں شائع کر کے نقشے وغیرہ حذف کر دیے۔

حضرت ابو ہریرہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے شاگرد حضرت ہمام ابن منبہ کے صحیفے کی تدوین کا کام ڈاکٹر حمید اللہ کا بہت بڑا کارنامہ تسلیم کیا جاتا ہے جبکہ فرانسیسی زبان میں ان کے ترجمہ قرآن کی اہمیت بھی مسلم ہے۔ آپ نے فرانسیسی زبان میں سیرت نبویؐ بھی تحریر کی جو دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ آپ نے امام محمد شیبانی کی کتاب السیر اور شاہ ولی اللہ کی حجۃ اللہ البالغہ کا فرانسیسی ترجمہ بھی کیا۔
ڈاکٹر محمد حمید اللہ، سال بہ سال

1933ء میں جرمنی کیبون یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور پھر وہیں اردو اور عربی کے استاد مقرر ہوئے۔
1938ء میں عثمانیہ یونیورسٹی میں شعبہٴ دینیات کے استاذ بنائے گئے۔
1946ء میں اقوام متحدہ میں ریاست حیدرآباد کے نمائندہ (سفیر) مقرر ہوئے۔
1948ء میں حیدرآباد پر بھارتی پولیس / فوجی ایکشن کے بعد پیرس میں ہی رہ کر جلاوطنی کی زندگی اختیار کی۔ وہ سقوط حیدرآباد کو بہت بڑا قومی سانحہ قرار دیتے تھے؛ چنانچہ انھوں نے ریاست حیدرآباد کے تحفظ اور عالمی برادری میں اس کی نمائندگی کی غرض سے ”حیدرآباد لیبریشن سوسائٹی“ کی بنیاد رکھی۔
1950 میں پاکستان کا پہلا مسودہ قانون یا قرارداد مقاصد کی تیاری کے لیے پاکستان نے جہاں دنیا بھر کے اہم علما سے رابطہ کیا انہی میں ڈاکٹر حمید اللہ بھی شامل تھے اور آپ نے قیام پاکستان کے بعد کچھ عرصہ اس سلسلے میں کراچی میں قیام کیا۔
آپ نے 1952ء سے 1978ء تک ترکی کی مختلف جامعات میں بطور مہمان استاد خدمات انجام دیں جن میں انقرہ، استنبول اور ارض روم کی جامعات بھی شامل ہیں۔ آپ 20 سال سے زائد عرصے تک فرانس کے قومی مرکز برائے سائنسی تحقیق سے وابستہ رہے۔
1980ء میں جامعہ بہاولپور میں طلبہ کو خطبات دیے جنہیں خطبات بہاولپور کے نام سے بعد ازاں شایع بھی کیا گیا۔ یہ سر سید احمد خان کے خطبات احمدیہ کے بعداردو زبان میں تاریخی و تحقیقی مواد کے لحاظ سے بہت اہمیت کی حامل کتاب ہے۔ خصوصاً ان کا پانچواں خطبہ “قانون بین الممالک ” ایسا موضوع ہے جو عام طور پر دینی درسگاہوں کے طالب علموں کی دسترس سے باہر ہے۔
پاکستان نے 1985ء میں آپ کو اعلیٰ ترین شہری اعزاز ہلال امتیاز سے نوازا۔ آپ نے اعزاز کے ساتھ ملنے والی تمام رقم (ایک کروڑ کروپیہ) بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ادارۂ تحقیقات اسلامی کو عطیہ کردی۔ اِس جامعہ کا کتب خانہ (لائبریری) ڈاکٹر حمید اللہ کے نام سے موسوم ہے۔
آپ 17 دسمبر 2002ء کو امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر جیکسن ول میں انتقال کر گئے۔

مشہور کتابیں

ڈاکٹر صاحب کی مشہور کتابیں اور تصانیف کچھ اس طرح سے ہیں۔
تعارف اسلام

”تعارف اسلام“ (Introduction of Islam) ڈاکٹر صاحب کی تصنیف کردہ کتب میں اور اسلام کے بارے میں شائع ہونے والی کتب میں سب سے زیادہ مشہور ہے۔ اس کتاب کا دنیا کی 22 زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔
قرآن کریم کا فرانسیسی ترجمہ اور تفسیر

ڈاکٹر صاحب نے پہلی بار قرآن کریم کا مکمل فرانسیسی زبان میں ترجمہ کیا اور تفسیر لکھی۔ اس ترجمہ اور تفسیر کے قریباً بیس ایڈیشنز شائع ہو چکے ہیں۔ یہ کسی بھی یورپی زبان میں سب سے زیادہ چھپنے والے تراجم میں سے ہے، جو کئی ملین کی تعداد میں شائع ہو چکا ہے۔ اس فرانسیسی ترجمے اور تفسیر سے بہت فرانسیسی اسلام کی طرف راغب ہوئے۔ اُن کی کوششوں اور تحقیق کی وجہ سے مسلمان ہونے والوں کی تعداد 30،000 بتائی جاتی ہے۔ اگرچہ یہ مبالغہ لگے مگر حقیقت میں ہزاروں لوگ ڈاکٹر صاحب کی وجہ سے اسلام کی طرف راغب ہوئے۔
خطبات بہاولپور

1980ء میں 8 مارچ سے 20 مارچ تک بہاولپور کی اسلامیہ یونیورسٹی میں ڈاکٹرمحمد حمید اللہ نے 1ک82 دن تک مختلف موضوعات پر لیکچرز دیے۔ ان لیکچرز میں اسلام کے کچھ بنیادی پہلوؤں اور اس کی ابتدائی تاریخ کا احاطہ کیا گیا ہے۔ فی البدیہہ دیے جانے والے یہ لیکچرز برسوں کی تحقیق اور دوسرے علم کا فی الواقع آسان زبان میں نچوڑ تھے۔ اردو میں سن کر لکھے جانے والے اور خطبات بہاولپور کے نام سے چھپنے والے یہ لیکچرز دوسری کئی چیزوں کے علاوہ اس بات پر مشتمل تھے کہ قرآن و حدیث کو کیسے جمع کیا گیا اور ان کی تدوین کی گئی۔ اس کتاب خطبات بہاولپور کا انگریزی میں ترجمہ اسلام کی آمد کے نام سے کیا گیا ہے۔ ان لیکچرز یا خطبات کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔

پہلا خطبہ:تاریخ قرآن
دوسرا خطبہ :تاریخ حدیث
تیسرا خطبہ تاریخ فقہ
چوتھا خطبہ: :تاریخ اصول فقہ و اجتہاد
پانچواں خطبہ: اسلامی قانون بین الممالک
چھٹا خطبہ:دین(عقائد، عبادت، تصوف)
ساتواں خطبہ:عہدِ نبوی میں مملکت اور نظم و نسق
آٹھواں خطبہ:عہدِ نبوی میں نظامِ دفاع اور غزوات
نواں خطبہ:عہدِ نبوی میں نظامِ تعلیم
دسواں خطبہ: عہدِ نبوی میں نظامِ تشریع و عدلیہ
گیارہواں خطبہ: عہدِ نبوی میں نظامِ مالیہ و تقویم
بارہواں خطبہ: عہدِ نبوی میں تبلیغ اسلام اور غیر مسلموں سے برتاؤ

صحیفہ ہمام بن منبہ
احادیث کی سب سے اولین کتابو ں میں شامل جو صحیفہ ہمام بن منبہ کے طور پر جانی جاتی ہے جسے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے (58 ہجری بمطابق 677 عیسوی) میں اپنے شاگردوں کو پڑھانے کے لیے تیار کیا تھا، اس عظیم دستاویز کو ڈاکتر محمد حمید اللہ نے اس کی تصنیف کے 1300 سال بعد جرمنی میں برلن لائبریری سے دریافت کیا اور شائع کرایا۔ اس دریافت سے بعض لوگوں کا یہ اعتراض بھی ختم ہو گیا کہ احادیث کی تدوین و تالیف نبی کریم ﷺ کی وفات کے 200 سال بعد ہوئی۔