مرزا غالب کی وفات فروری 15

نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب بہادر نظام جنگ (1797ء- 1869ء) اردو زبان کے سب سے بڑے شاعروں میں ایک سمجھے جاتے ہیں۔ یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ 19 ویں صدی غالب کی صدی ہے۔ جبکہ 18 ویں میر تقی میر کی تھی اور 20 ویں علامہ اقبال کی۔ غالب کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کاا صل کمال یہ ہے کہ وہ ز ندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کردیتے تھے۔غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے اس میں انہوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور باہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا۔غالباً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی-

مرزا غالب کا نام اسد اللہ بیگ خاں تھا۔ باپ کا نام عبداللہ بیگ تھا ۔ آپ دسمبر 1797ء میں آگرہ میں پیدا ہوئے۔ غالب بچپن ہی میں یتیم ہو گئے تھے ان کی پرورش ان کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ نے کی لیکن آٹھ سال کی عمر میں ان کے چچا بھی فوت ہو گئے۔ نواب احمد بخش خاں نے مرزا کے خاندان کا انگریزوں سے وظیفہ مقرر کرا دیا۔ 1810ء میں تیرہ سال کی عمر میں ان کی شادی نواب احمد بخش کے چھوٹے بھائی مرزا الہی بخش خاں معروف کی بیٹی امراءبیگم سے ہو گئی شادی کے بعد انہوں نے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ کر دہلی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔

شادی کے بعد مرزا کے اخراجات بڑھ گئے اور مقروض ہو گئے۔ اس دوران میں انہیں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ور قرض کا بوجھ مزید بڑھنے لگا۔ آخر مالی پریشانیوں سے مجبور ہو کر غالب نے قلعہ کی ملازمت اختیار کر لی اور 1850ء میں بہادر شاہ ظفر نے مرزا غالب کو نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ کا خطاب عطا فرمایا اور خاندان تیموری کی تاریخ لکھنے پر مامور کر دیا اور 50 روپے ماہور مرزا کا وظیفہ مقرر ہوا۔

غدر کے بعد مرزا کی سرکاری پنشن بھی بند ہو گئی ۔ چنانچہ انقلاب 1857ء کے بعد مرزا نے نواب یوسف علی خاں والی رامپور کو امداد کے لیے لکھا انہوں نے سو روپے ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا جو مرزا کو تادم حیات ملتا رہا۔ کثرت شراب نوشی کی بدولت ان کی صحت بالکل تباہ ہو گئی مرنے سے پہلے بے ہوشی طاری رہی اور اسی حالت میں 15 فروری 1869ء کو انتقال فرمایا۔

1954 میں مرزا غالب فلم بنی۔ جس کے اہم کردار بھرت بھوشن نے ادا کیا۔ حکومت ہند نے قومی بہترین فلم اعزاز کا سلسلہ اسی سال سے شروع کیا اور پہلا ایوارڈ اس فلم کو دیا گیا۔
گلزار نے ایک ٹی وی سیریل بنایا1988  جس میں اہم کردار نصیر الدین شاہ نے ادا کیا۔

قید حیات و بند غم ، اصل میں دونوں ایک ہیں‬
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں؟‬

Translation in English

The prison of life and the bondage of grief are one and the same
Before the onset of death, why should man expect to be free of grief?
Mirza Ghalib’s view of world as he sees world is like a playground where everyone is busy in some mundane activity and merrymaking rather than something of greater value as he wrote:

باغیچۂ اطفال ہے دنیا میرے آگے ‬
ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے ‬

Translation in English

Just like a child’s play this world appears to me
Every single night and day, this spectacle I see
At the age of thirty he had seven children, none of whom survived (this pain has found its echo in some of Ghalib’s ghazals). There are conflicting reports regarding his relationship with his wife. She was considered to be pious, conservative and God-fearing.

Ghalib was proud of his reputation as a rake. He was once imprisoned for gambling and subsequently relished the affair with pride. In the Mughal court circles, he even acquired a reputation as a “ladies’ man”.[10]:41 Once, when someone praised the poetry of the pious Sheikh Sahbai in his presence, Ghalib immediately retorted:

How can Sahbai be a poet? He has never tasted wine, nor has he ever gambled; he has not been beaten with slippers by lovers, nor has he ever seen the inside of a jail.

؎ اگ رہا ہے در و دیوار سے سبزہ غاؔلب
ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے

Leave a Reply